برطانیہ کا چین سے اقوام متحدہ کو سنکیانگ تک رسائی دینے کا مطالبہ
برطانیہ کا چین سے اقوام متحدہ کو سنکیانگ تک رسائی دینے کا مطالبہ
اتوار 17 جنوری 2021 16:33
برطانوی وزیر خارجہ کے مطابق چین کا ایغوروں کے ساتھ سلوک نسل کشی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت کرے گی (فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ نے چین کے مسلمان اکثریتی صوبے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی حالیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں چین پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو صوبے کے دورے کی اجازت دی جائے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ ڈومنیک راب نے گذشتہ ہفتے ایسی کمپنیوں کے خلاف درآمدات کے نئے ضوابط متعارف کروائے تھے جنہوں نے سنیکانگ سے اشیا درآمد کیں جہاں مبینہ طور پر ایغوروں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔
وزیر خارجہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنکیانگ میں جبری مشقت، جبری نس بندی اور انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’یہ طے کرنا عدالت کا کام ہے کہ یہ نسل کشی ہے یا نہیں لیکن اس حوالے سے بات کافی آگے بڑھ چکی ہے۔‘
’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایسے ممالک سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ نہیں کرنے چاہیں جو نسل کشی کی حد تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔‘
اے ایف پی کے مطابق ان کا اشارہ یورپی یونین کی طرف تھا جس نے گذشتہ ماہ چین کے ساتھ سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا۔
ڈومنیک راب کی حکومت پارلیمنٹ میں کی جانے والی ان کوششوں کی مخالف ہے جن کے تحت عدالت کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ سنکیانگ میں نسل کشی ہونے کا اعلان کریں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو برطانوی حکومت کو چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں سے روک دیا جائے گا۔
تاہم سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس تجویز سے متفق ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ چین سنیانگ کے حوالے سے شفافیت کا مظاہرہ کرے۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ماورائے عدالت حراستی کیمپوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جس میں کم از کم دس لاکھ افراد قید ہیں۔
چین نے سنکیانگ میں ایغوروں کو جبری مشقت پر مجبور کرنے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے تربیتی پروگرامز، روزگار کے سکیموں اور بہترین تعلیم کی وجہ سے خطے سے شدت پسندی کو ختم کر دیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ ٹریننگ سینٹرز ہیں جس میں شدت پسندی سے بچاؤ کی تربیت دی جاتی ہے۔