صوبہ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی جامعہ، یونیورسٹی آف پشاور کو ایک بار پھر مالی مسائل کا سامنا ہے۔
جامعہ کے پاس فنڈز نہ ہونے کے باعث ملازمین کو جنوری کی تنخواہیں پوری نہیں ملیں گی بلکہ صرف بنیادی تنخواہ دی جائے گی۔
جمعرات کو یونیورسٹی رجسٹرار کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ ’یونیورسٹی کے پاس فنڈز نہیں لہٰذا ملازمین کو رواں ماہ کے الاؤنسز نہیں ملیں گے، صرف بنیادی تنخواہ دی جائے گی۔‘
مزید پڑھیں
-
پشاور کا ’تھری ڈی‘ سینما ماحول بدل رہا ہےNode ID: 455386
-
’مسافروں کا تحفظ ترجیح‘، پشاور بی آر ٹی سروس بندNode ID: 505441
-
پشاور کی’ڈولیاں‘ کہاں جا رہی ہیں؟Node ID: 520021
ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ گذشتہ سال جنوری میں بھی یونیورسٹی نے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے نجی بینکوں سے قرضے لیے تھے۔
یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یونیورسٹی گذشتہ دس ماہ سے بند تھی اور طلبہ سے بہت کم ریکوری ہوئی ہے۔ اس لیے تنخواہیں دینے کا مسئلہ پیدا ہوا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ سال جون میں یونیورسٹی کو 25 کروڑ روپے خسارے کا سامنا تھا، تاہم اس سال جون تک خسارہ بڑھ کر ایک ارب روپے تک جانے کا اندیشہ ہے۔‘
یونیورسٹی حکام وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بیل آؤٹ پیکج مل جائے۔ گذشتہ سال یونیورسٹی کو دو ارب روپے کی گرانٹ درکار تھی تاہم صرف 80 کروڑ روپے ملے تھے۔
پشاور یونیورسٹی میں 15 ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور یہاں ملازمین کی تعداد تقریبا دو ہزار ہے۔

یونیورسٹی کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے گذشتہ سال پانچ سو کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح داخلہ فیس، ہاسٹل فیس، ٹیوشن فیس میں اضافہ اور کئی دیگر اقدامات اٹھائے گئے، تاہم اس سے خسارہ کم نہ ہوسکا۔
ترجمان کے مطابق ’یونیورسٹی کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ پنشنز کی مد میں چلا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک پرانی درس گاہ ہے اور یہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین ریٹائر ہوئے ہیں۔ سالانہ ایک ارب دس کروڑ روپے پنشن میں چلے جاتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی جامعات میں مالی بحران کو قابو میں لانے کے لیے ہایئر ایجوکیشن، آرکائیو اینڈ لائبریری ڈیپارٹمنٹ نے جامعات میں نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کو پینشن نہ دینے کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔
ایک ہفتہ پہلے جاری ہونے والے اس اعلامیے کے مطابق ’صوبے کی تمام جامعات میں نئی بھرتیاں گورنمنٹ پے سکیل کے بجائے اپنے پے سکیل کے مطابق ہوں گی۔‘
’مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے جامعات کی زیرنگرانی سکولوں کی فیس بڑھائی جائے جبکہ موجودہ میڈیکل اور ہاؤس الاؤنس کو تبدیل کرکے صوبائی حکومت کی شرح پر لائی جائے۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’ملازمین کے گھروں کی مرمت، سکیورٹی اور دیگر اخراجات کے پیسے کیمپس کے اندر رہائش پذیر ملازمین سے وصول کیے جائیں۔‘
پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فضل ناصر کہتے ہیں کہ ’تنخواہ سے صرف دس دن پہلے انتظامیہ کو یہ پتا چلنا کہ خزانہ خالی ہے انتہائی افسوس ناک ہے۔‘
ڈاکٹر فضل ناصر کے مطابق ٹریژی ڈیپارٹمنٹ کو پہلے سے پتا ہونا چاہیے تھا کہ ان کے پاس تنخواہوں کے لیے فنڈ موجود نہیں ہیں۔
