Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور کی غلیلوں کا رنگ اچھا ہے یا نشانہ؟

آج کے دور میں جب انسان نے جانوروں اور پرندوں کے شکار کے لیے بھی نت نئے ہتھیار ایجاد کر لیے ہیں تو ایسے میں آج بھی ’غلیل‘ کا استعمال عجیب سا لگتا ہے۔
لیکن آج بھی پشاور میں صدیوں پرانے ہتھیار ’غلیل‘ کی ایک پوری مارکیٹ ہے جہاں سے ہر سال ہزاروں غلیلیں شکار اور نشانہ بازی کے لیے فروخت کی جاتی ہیں۔
پشاور کے اندرون شہر نمک منڈی میں قائم یہ غلیل مارکیٹ کئی دہائیاں پرانی ہے، یہاں تجارت کرنے والے غلیل فروشوں کے مطابق انہیں یہ ہنر اور کاروبار آباؤاجداد سے ورثے میں ملا ہے، اور یہ آج بھی منافع بخش ہے۔ 
نمک منڈی سے گزریں تو یہ مارکیٹ اپنی رنگینی کے باعث دور سے نظر آ جاتی ہے۔ یہاں کئی دُکانیں ہیں، جن پر مزدور کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک دکان پر تین سے دس تک لوگ کام کرتے ہیں۔
غلیل مارکیٹ میں تجارت کرنے والے 36 سالہ اکرام اللہ جو بچپن سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے بزرگوں کے مطابق یہ مارکیٹ تقریباً پچاس سال پرانی ہے اور غلیلوں کی تیاری اور فروخت کا کاروبار نسل درنسل منتقل ہو رہا ہے۔
خود اکرام کو یہ کاروبار ان کے والد سے ورثے میں ملا ہے۔
اکرام اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ پہاڑی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے دیہات میں اکثر نوجوان اور بچے آج بھی شکار کے لیے غلیل کا استعمال کرتے ہیں۔

غلیل فروشوں کے مطابق انہیں یہ ہنر اور کاروبار آباؤاجداد سے ورثے میں ملا ہے۔

جنوری کے مہینے میں خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں اکثر بچے غلیل سے شکار یا نشانہ بازی کرتے نظر آتے ہیں۔
اکرام اللہ کے مطابق غلیل رکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس ہتھیار کو بغیر کسی قانونی دستاویز کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔
’یہ روایتی ہونے کے ساتھ ساتھ سستا ہتھیار بھی ہے، ہر کوئی اس کو خرید سکتا ہے۔‘
غلیلوں کے کاروبار کرنے والے ایک اور دکاندار صمد خان کا کہنا ہے کہ ان کا کاروبار سال میں صرف چار ماہ چلتا ہے۔
 ’جنوری سے اپریل تک زیادہ کاروبار ہوتا ہے، باقی مہینوں میں سیل کم ہوتی ہے، زیادہ تر غلیل افغانستان،  قبائلی اضلاع، ملاکنڈ ڈویژن اور پنجاب  کو سپلائی کرتے ہیں۔‘
’پورے پاکستان میں یہ واحد مارکیٹ ہے جہاں صرف غلیلوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ باقی شہروں میں ایک دو دکانیں ہوتی ہیں یا کسی جنرل سٹور والے کے پاس غلیلیں پڑی ہوتی ہیں۔‘

دس روپے سے لے کر پانچ سو تک کی ایک غلیل ہوتی ہے۔

صمد خان کو ان چار مہینوں میں کاروبار زیادہ ہونے کی درست وجوہات تو معلوم نہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ پہاڑی علاقوں میں ان مہینوں کے دوران سکولوں کی چھٹیوں کے باعث ہوتا ہے۔
غلیل تیار کرنے کے لیے ربڑ ملائیشیا اور سری لنکا سےدرآمد کیا جاتا ہے اور اس کے باقی حصے مقامی طور پر تیار ہوتے ہیں۔
’ ان روایتی غلیلوں کی تیاری میں صرف تین چیزیں استعمال ہوتی ہے، لکڑی کا دستہ، چمڑا پیڈ اور ربڑ کی لچکدار پٹی۔‘
غلیل کے دام  لکڑی کے دستے پر ہونے والے کام اور مٹیریل کی مناسبت سے مقرر کیے جاتے ہیں۔ لکڑی کے دستوں پر شوخ رنگ کے موتی سجائے جاتے ہیں، دستے پر کام زیادہ ہو تو قیمت زیادہ وصول کی جاتی ہے۔

غلیل تیار کرنے کے لیے ربڑ ملائیشیا اور سری لنکا سےدرآمد کیا جاتا ہے۔

اکرام اللہ کے مطابق اس مارکیٹ میں غلیلوں کی پچیس دکانیں ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر کام ہول سیل کا ہے اکثر غلیل آرڈر پر تیار  کی جاتی ہیں۔
’ورائٹی کے مطابق اس کی قیمت ہوتی ہے، دس روپے سے لے کر پانچ سو تک کی ایک غلیل ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ کاریگر ہوتے ہیں دکانوں میں، جو ربڑ کی بڑی شیٹ سے پٹیاں بناتے ہیں اور پھر ان کو غلیل کے دستوں پر لگا دیتے ہیں۔ زیادہ تر غلیلیں خواتین کارکن گھر بیٹھ کر تیار کرتی ہیں۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: