Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: وفاقی محکموں میں سینکڑوں ملازمین کے ڈومیسائل غیر تصدیق شدہ قرار

’جن ملازمین کے لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تصدیق نہیں ہوئی ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔‘ (فوٹو: بی ایچ سی)
پاکستان کے وفاقی اداروں میں بلوچستان کے کوٹے پر ملازمت کرنے والے 27 سو سے زائد ملازمین کے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس جعلی یا پھر غیر تصدیق شدہ نکلے۔
غیر تصدیق شدہ اور جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس کے حامل افراد میں کئی وفاقی محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
اس بات کا انکشاف بلوچستان ہائی کورٹ میں صوبائی حکام کی جانب سے جمع کرائی گئیں رپورٹس میں کیا گیا ہے۔
گورنر سیکریٹریٹ کی جانب سے مارچ 2019 میں اور اس کے بعد صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو وفاق میں بلوچستان کے کوٹے پر ملازمت کرنے والے لگ بھگ 20 ہزار ملازمین کی فہرستیں بجھوائی گئی تھیں۔ ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات کی گئی تھیں کہ ان ملازمین کے مستقل رہائشی سرٹیفکیٹس (لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس ) کی تصدیق کی جائے۔
تقریباً دو سال سے جاری جانچ پڑتال کے بعد بلوچستان کے چار ڈویژنز نصیرآباد، سبی، قلات اور رخشان ڈویژن کے کمشنرز کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ چاروں ڈویژنز کے 20 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے پانچ ہزار 534 ملازمین کے لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی جانچ پڑتال کی جن میں سے تقریباً نصف یعنی 2745 ملازمین کے رہائشی سرٹیفکیٹ کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
رپورٹ کے مطابق لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تصدیق کے لیے متعلقہ ملازمین کو اخبارات کے ذریعے نوٹسز جاری کیے گئے۔
اس دوران ڈھائی ہزار ملازمین ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے بنائی گئی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے  لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تصدیق کرائی۔ کچھ ملازمین کے کوائف اضلاع کی تقسیم ہونے کے بعد مزید تصدیق کے لیے نئے اضلاع کی انتظامیہ کو بھیجے گئے۔ جبکہ باقی دو ہزار 745 ملازمین بارہا نوٹسز کے باوجود کمیٹیوں کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
جانچ پڑتال کے دوران ان کے سرٹیفکیٹس جعلی یا پھر غیر مصدقہ پائے گئے۔
رپورٹس کے مطابق جن ملازمین کے سرٹیفکیٹس کی تصدیق نہیں ہوئی وہ دفاع، داخلہ، خزانہ، صحت، سائنس، مواصلات کی وزارتوں اور ذیلی محکموں کے علاوہ واپڈا، کیسکو، ریلوے، نیشنل بینک، پی ایم ڈی سی اور موٹرے پولیس جیسے اداروں کے ملازم ہیں۔
دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ ضلع سبی میں 533 ڈومیسائل اور لوکل غیر تصدیق شدہ نکلے۔ نصیرآباد میں 452، جعفرآبا د 340، کچھی 325، قلات 294، خضدار 173، مستونگ 142اور ضلع زیارت میں 99 لوکل اور ڈومیسائل غیر تصدیق شدہ پائے گئے۔

کبیر محمد شہی نے بتایا کہ بلوچستان میں باقی ملک کے برعکس لوکل کے ساتھ ساتھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے جاتے ہیں (فوٹو: فیس بک کبیر محمد

بلوچستان میں کل 34 اضلاع اور سات ڈویژنز پر مشتمل ہیں۔ کوئٹہ، مکران اور ژوب ڈویژن کے کمشنرز کی جانب سے اب تک عدالت میں رپورٹس جمع نہیں کرائی گئیں۔
درخواست گزار ساجد ترین ایڈووکیٹ کے مطابق کئی کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز دانستہ طورپر اپنی رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کروا رہے جس پر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حمید بلوچ پر مشتمل بنچ نے محکمہ داخلہ کو اگلی سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
خیال رہے کہ سول سرونٹس رولز 1973 کے مطابق وفاقی اداروں میں ملازمتوں کا کوٹہ آبادی کے لحاظ سے مقرر کیا گیا ہے۔ پنجاب کا 50 فیصد اور سندھ کا 19 فیصد کوٹہ جبکہ بلوچستان کے لیے آسامیوں کا چھ فیصد حصہ مختص ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور سینیئر وکیل  ساجد ترین کے مطابق بلوچستان کے کوٹے پر وفاقی اداروں میں تقریباً 22 ہزار افراد ملازمت کررہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان بائیس ہزار ملازمین میں اکثریت کا تعلق باقی صوبوں سے ہے۔ انہوں نے جعل سازی اوردھوکہ دہی سے بلوچستان کے مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ حاصل کرکے ملازمتیں  حاصل کی ہیں۔
ساجد ترین ایڈووکیٹ کے مطابق بلوچستان میں ایگزیکٹیو آفیسرز، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز سمیت بیشتر اعلیٰ سول افسران دوسرے صوبوں سے آتے ہیں وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے ان رشتہ داروں اور دوستوں کوبھی غیر قانونی طریقے سے ڈومیسائل بناکر دے دیتے ہیں  جن کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ باقی صوبوں کے لوگ جعلی ڈومیسائل بناکر بلوچستان کے حصے کی سرکاری ملازمتیں حاصل کرکے مقامی نوجوانوں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ یہی لوگ سرکاری میڈیکل کالجوں یا پھر ایچ ای سی کی سکالر شپس حاصل کرکے اندرون اور بیرون ملک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے لے لیتے ہیں اورپسماندہ صوبے کے غریب طالب علموں کا حق کھا جاتے ہیں۔
جعلی لوکل سرٹیفیکیٹس اور ڈومیسائل کا معاملہ 2017 میں سینیٹ آف پاکستان میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء سینیٹر کبیر محمد شہی کے مطابق انہوں نے متفقہ قرارداد منظور کرائی تھی کہ بلوچستان سے جاری ہونےو الے تمام ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی جائے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیبیٹ کی قرارداد کے بعد اسٹیبشلمنٹ ڈویژن اسلام آباد نے بلوچستان حکومت کو خط لکھ کر وفاقی ملازمین کے کوائف کی تصدیق کرنے کا کہا تھا۔ 

لوکل اور ڈومیسائل کا فرق ختم کرکے صرف ایک لوکل رہائشی سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے (فوٹو: پی این ڈی)

کبیر محمد شہی نے بتایا کہ بلوچستان میں باقی ملک کے برعکس لوکل کے ساتھ ساتھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ ڈومیسائل ان لوگوں کو دیئے جاتے ہیں جو طویل عرصے سے بلوچستان میں رہائش پذیر ہیں جبکہ بلوچستان کے قدیم باشندوں کو لوکل سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے رہنماء کے بقول ڈومیسائل کی آڑ میں ایسے افراد نے بھی رہائشی سرٹیفکیٹ حاصل کئے ہیں جنہوں نے اپنی ملازمت کے صرف چند ماہ بلوچستان میں گزارے۔ اس بنیاد پر بعد میں ان کے بچے بھی آسانی سے ڈومیسائل حاصل کرلیتے ہیں۔
سینیٹر کبیر محمد نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں جاری ہونے والے ڈومیسائل میں پچاس فیصد سے زائد غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے ہیں۔ یہ افراد ملازمتوں کے ساتھ ساتھ ایچ ایس سی کی سکالر شپس کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور بلوچستان کے حقیقی باشندے محروم رہ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے قدیم بلوچ پشتون باشندوں کے ساتھ ساتھ طویل عرصے سے صوبے میں رہنے والے ہزارہ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی باشندوں کو بھی ہم بلوچستانی سمجھتے ہیں۔ لوکل اور ڈومیسائل کا فرق ختم کرکے صرف ایک لوکل رہائشی سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے جو صرف بلوچستان میں رہنے والوں کو ہی دیا جائے۔
ساجد ترین ایڈووکیٹ کے مطابق جن ملازمین کے لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔

شیئر: