’وفاقی حکومت دھوکہ کر رہی ہے‘ سٹیل ملز کے ملازمین کا دھرنا جاری
’وفاقی حکومت دھوکہ کر رہی ہے‘ سٹیل ملز کے ملازمین کا دھرنا جاری
جمعرات 14 جنوری 2021 19:27
توصیف رضی ملک -اردو نیوز- کراچی
ملازمین سٹیل ملز کے سی ای او کے گھر کے باہر چار دن سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پچھلے پانچ سال سے پاکستان سٹیل ملز میں کام مکمل طور پر بند ہے تاہم ملازمین کو تنخواہ ادا کی جا رہی ہیں، جس کے لیے حکومت ماہانہ 35 کروڑ روپے کا بیل آؤٹ پیکج دیتی ہے۔
اس صورتحال میں نہ تو نجکاری ممکن ہے نہ بحالی، اسی لیے حکومت نے نومبر 2020 میں آدھے ملازمین کو برطرف کیا تھا جو اب سٹیل ملز کے سی ای او کے گھر کے باہر چار دن سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ کچھ سال پہلے تک سٹیل ملز میں 30 ہزار ملازمین کام کرتے تھے، البتہ خسارے میں جانے کے بعد سے نئی بھرتیاں نہیں ہوئیں اور ملازمین آہستہ آہستہ ریٹائر ہوتے رہے۔ 2015 کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو واجبات کے لیے بھی عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔
اس کے بعد سٹیل ملز ملازمین کی تعداد 9 ہزار رہ گئی تھی۔ محتاط اندازے کے مطابق 2020 میں حاضر سروس ملازمین میں سے بیشتر ایسے تھے جنہیں چند سالوں میں ریٹائر ہونا تھا۔ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت سٹیل ملز میں کام کرنے والے تقریباً تمام ہی ملازمین 40 سال سے زیادہ عمر کے ہیں کیونکہ کئی سالوں سے کوئی نئی بھرتی نہیں ہوئی۔
۔‘
دو ہزار اٹھارہ، انیس کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان سٹیل ملز کا خسارہ 188 ارب روپے تک پہنچا تھا۔ سٹیل ملز کے ملازمین کی تنظیم انصاف لیبر یونین کے مطابق یہ خسارہ اب بڑھ کر 212 ارب روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ تحریک انصاف حکومت کے دور کی بات کی جائے تو صرف گذشتہ 29 ماہ میں 50 ارب روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق موجودہ صورتحال میں پاکستان سٹیل ملز ہر گھنٹہ 50 لاکھ روپے کا خسارہ کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کے تمام دعوؤں اور بیانات کے برعکس نومبر 2020 میں ساڑھے چار ہزار ملازمین کو برطرف کرتے ہوئے 23 لاکھ روپے فی کس معاوضہ کی ادائیگی کا اعلان کیا تھا، تاہم اکثر ملازمین کو برطرفی کے باوجود رقوم کی ادائیگی نہیں ہوئی۔ صرف کچھ کو چیک جاری ہوئے تھے لیکن ان میں سے بھی زیادہ تر باؤنس ہوئے۔
اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سٹیل ملز کو بحال کرے گی۔ موجودہ وفاقی وزیر برائے پلاننگ اسد عمر نے متعدد بار بیان دیا تھا کہ ان کی پارٹی سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف ہے اور ’اگر ایسا کوئی موقع آیا کہ سٹیل ملز ملازمین کو ان کا حق نہ ملا تو وہ حکومت کا نہیں ملازمین کا ساتھ دیں گے۔‘
لیکن ایسے تمام دعوؤں کے باوجود وفاقی حکومت نہ صرف سٹیل ملز کو فعال کرنے میں ناکام رہی بلکہ اس کے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو بھی فارغ کیا گیا۔
سابق ملازم اسداللہ عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ٹرمینیشن لیٹر تو حکومتی اعلان کے فوراً بعد ہی ملازمین کو گھروں پر ہی موصول ہوگئے تھے البتہ صرف چند ہی ملازمین ایسے تھے کہ جنہیں ساتھ چیک بھی ملے۔
’چند ملازمین کو جو چیک موصول ہوئے وہ اعلان کردہ معاوضے کے مطابو نہیں تھے بلکہ محض 5 لاکھ روپے کے تھے اور جب ان کو کیش کرانے کی کوشش کی گئی تو زیادہ تر باؤنس ہوئے۔
اسداللہ کا کہنا تھا کہ حکومت دھوکہ دہی سے کام لے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جبری برطرفی کے خلاف انہوں نے عدالت سے بھی رجوع کیا اور تمام فیصلے ان کے حق میں آنے کے باوجود حکومت اور انتظامیہ ملازمین کو ان کا حق ادا کرنے میں سنجیدہ نہیں بلکہ یہ رقم بھی ہڑپ کر ے کے درپے ہے۔
بقول ان کے اسی لیے سب ملازمین دھرنے میں بیٹھ گئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ معاوضے کے حوالے سے سابق ملازم ناصر منصور کا کہنا تھا کہ جو ملازمین اپنی پوری زندگی سٹیل ملز میں نوکری کر کے ریٹائر ہوتے ہیں ان کی گریجویٹی کی رقم ہی 30 سے 40 لاکھ بنتی ہے۔
’سو جو سینکڑوں ہزاروں ملازمین ریٹائرمنٹ کے قریب تھے انہیں حکومتی اقدام سے نقصان ہوا اور ان کی عمر بھر کی محنت کی کمائی ان سے چھینی جا رہی ہے۔‘
دھرنے میں شریک ملازمین کا موقف ہے کہ جو معاوضہ انہیں ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے وہ گولڈن ہینڈ شیک نہیں بلکہ وہ بقایاجات ہیں جو اتنے سالوں کی نوکری کے بعد بنتے ہیں۔
گذشتہ ادوار میں سٹیل ملز کی نجکاری کی بھی کوشش کی گئی تھی جو عدالت نے رکوا دی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تو سٹیل ملز کی نجکاری بھی ممکن نہیں کیونکہ اس پر 12 ارب ڈالر کا قرضہ ہے اور کوئی بھی اس کو خریدنے کو تیار نہیں۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے بھی پہلے نجکاری کی ہی کوشش کی تھی لیکن قرضوں اور ملازمین کے قابلِ ادا فنڈز کے بوجھ میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا، جس کے بعد حکومت نے نصف ملازمین کو جبری برطرف کیا۔
اسداللہ نے اس بارے میں بتایا کہ انتظامیہ کئی ڈیپارٹمنٹس کو بند کر کے مستقل ملازمین کو برطرف کر رہی ہے، جن کی جگہ ٹھیکے داروں کے ذریعے کام کروایا جا رہا ہے اور اس میں قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے جا رہے۔
حکومت کی جانب سے ایک اور موقف یہ بھی اپنا گیا تھا کہ ملازمین کو مختصر مدت کے لیے برطرف کیا جائے گا اور انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد انہیں دوبارہ کام پر رکھا جائے گا۔ تاہم سابق ملازمین کا ماننا ہے کہ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہوگا کہ بیشتر برطرف ملازمین ریٹائرمنٹ کے قریب تھے اور اس عمر میں انہیں دوبارہ نوکری نہیں دے گا کوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ملازمین دھرنا دے کر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ سٹیل ملز کی نجکاری کی صورت میں اس کی اراضی وفاق کی نہیں بلکہ صوبے کی ملکیت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت اپنی لیبر تنظیموں کے ذریعے دھرنے میں بیٹھے ملازمین کو سپورٹ کر رہی ہے۔
وزیر تعلیم سندھ سعید غنی اس حوالے سے دھرنے میں شرکت اور صوبائی حکومت کی جانب سے دھرنے کے شرکا کی حمایت کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔