Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ادھر آ بے، ابے او چاک گریباں والے‘ 

گریبان کو عربی میں ’جیب‘ کہتے ہیں اور اس معنی کے ساتھ یہ اردو میں بھی رائج ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے 
ادھر آ بے، ابے او چاک گریباں والے 
شعر کیا ہے سادہ الفاظ  سے بنی تصویر ہے جس میں کوچہ و کردار مجسم نظر آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ’منشی انوار حسین تسلیم ‘ کا یہ شعر سادگی و پُرکاری کی خوبصورت مثال ہے۔ 
ہمیں اس خوبصورت شعر میں لفظ ’گریبان‘ سے دلچسپی ہے کہ فارسی میں اس کی نسبت سے گریبان گیر، گریبان دریدہ، گریبان گسل اور گریبانِ کوہ جیسی دلنشین تراکیب رائج ہیں۔ 
 
’گریبان‘ دو لفظوں ’گرے‘ اور ’بان‘ سے مرکب ہے۔ گرے کے معنی ’گلا‘ ہیں، جب کہ ’بان‘ مختلف ’ناموں‘ کے آخر میں لگانے سے محافظ یا مالک کے معنی دیتا ہے۔ اسے آپ میزبان، دربان اور شتربان وغیرہ کی تراکیب میٍں دیکھ سکتے ہیں۔ یوں ’گریبان‘ کے معنی ہوئے’ گلے کا محافظ‘۔ بظاہر اسے یہ نام گلے سے قربت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ 
فارسی ’گرے‘ سنسکرت میں ’گریو‘ ہے، یوں دونوں اصلاً ایک ہی لفظ قرار پاتے ہیں جب کہ ’بان‘ سنسکرت میں ’وان‘ ہے۔ اس ’وان‘ کو ’بان‘ کے معنی کے ساتھ ’کوچوان‘ کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔ وان اور بان بھی ایک ہی لفظ کی دو صورتیں ہیں کہ ’و‘ اور ’ب‘ اکثر صورتوں میں ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں، جیسے مشہور بادشاہ ’وکرما جیت‘ کے نام کی دوسری صورت ’بکرما جیت‘ ہے۔   
آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات اور ملاحظہ کریں کہ ’وان‘ اور ’بان‘ کا ہم معنی اور ہم وزن ایک لفظ ’پان‘ بھی ہے جو ظاہر ہے کہ ’ب‘ کے ’پ‘ سے بدلنے کا نتیجہ ہے۔ اس ’پان‘ کو ’وان‘ اور ’بان‘ کے معنی کے ساتھ  لفظ ’چوپان‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’چوپان‘ کے معنی ’چوپائے کا رکھوالا‘ یعنی ’گڈریا‘ ہیں۔ پھر اس ’چوپان‘ کی ایک صورت ’چوپال‘ یعنی ’مویشی پالنے والا‘ ہے۔ ’چوپان‘ سے ’چوپال‘ کا سفر ’ن‘ کے حرف ’ل‘ سے بدلنے کا نتیجہ ہے۔ یقین نہ آئے لفظ ’پَٹن‘ اور ’پَٹم‘ پر غور کریں کہ ان دونوں لفظوں کے معنی میں ’گھاٹ‘ اور ’آبادی‘ شامل ہیں۔  
اب واپس ’گریبان‘ پر آتے ہیں۔ گریبان کو عربی میں ’جیب‘ کہتے ہیں اور اس معنی کے ساتھ یہ اردو میں بھی رائج ہے۔ دیکھیں میرزا غالب کیا کہہ رہے ہیں:  
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن  
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے 

بظاہر عربی کے مذکر ’جیب‘ کا اردو کے مؤنث ’جیب‘ سے کوئی تعلق نہیں (فوٹو: اے ایف پی)

غالب نے ’جیب‘ مذکر باندھا ہے اور درست باندھا ہے کہ عربی میں گریبان، سینہ، دل اور پیراہن کے معنی کے ساتھ ’جیب‘ مذکر ہے۔ جب کہ اردو میں ’جیب‘ مؤنث ہے، اور یہ لباس کے ساتھ سلی اُس تھیلی کو کہتے ہیں جو عام طور پر پیسے رکھنے کے کام آتی ہے۔ 
بظاہر عربی کے مذکر ’جیب‘ کا اردو کے مؤنث ’جیب‘ سے کوئی تعلق نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو کی ’جیب‘ کی اصل عربی ہی ہے۔ وہ یوں کہ زمانہ قدیم میں عرب پیسوں کی تھیلی کو جیب یعنی گریبان میں اندر کی جانب ٹانک لیتے تھے کہ رقم محفوظ رہے۔ یوں یہ تھیلی ’جیب‘ کی نسبت سے خود بھی ’جیب‘ کہلائی۔ بعد میں یہ تھیلی سینے سے کھس کر قیمص و کُرتے کے پہلو سے آ لگی اور حسب سابق ’جیب‘ رہی، تاہم سے سفر میں اس کی جنس مذکر سے مؤنث ہوگئی۔  
جیب کی طرح ’قمیص‘ بھی عربی لفظ ہے جسے عام طور پر ’قیمض‘ بھی کہہ دیا جاتا ہے جو درست نہیں، اس غلطی کی وجہ حرف ’ص‘ اور ’ض‘ کا قریب المخرج ہونا ہے، یوں ’قمیص‘ غلط طور پر’قمیض‘ بن جاتی ہے۔ 
’ص‘ کا عربی تلفظ ’صاد‘ ہے، اور ’صاد‘ کو صید (شکار) اور صیاد (شکاری) سے گہری نسبت ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں وہ کیسے؟ تو عرض ہے کہ عربی و عبرانی کے بیشتر حروف کی اصل مختلف اشیاء کی تصویریں ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ حروف میں ڈھل گئیں اور مختلف اوازوں کی نمائندہ قرار پائیں۔
انہیں تصویروں میں سے ایک مچھلی پکڑنے کا کانٹا ہے جو ’صاد‘ کہلاتا ہے۔ اب اس معنی کے ساتھ حرف ’ص‘ پر غور کریں تو اس میں آپ کو یہ کانٹا صاف نظر آجائے گا۔ حروف تہجی کی کہانی کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے اور آگے بڑھتے ہیں مگر اس سے قبل ’صیاد‘ کی رعایت سے شعر ملاحظہ کریں: 
صیاد اب جو اذن رہائی دیا تو کیا 
مدت ہوئی کہ آرزوئے بال و پر گئی 

’لکھنے والا کورے کاغذ کو قلم کی سیاہی سے سیاہ کر دیتا ہے اس لیے یہ لکھائی ’مسودہ‘ کہلاتی ہے‘ (فوٹو: پکسا بے)

عام طور پر کسی کتاب کے قلمی نسخے کو ’مسودہ‘ کہتے ہیں۔ اس مسودہ کی اصل ’سودہ‘ یعنی سیاہ ہے، چوں کہ لکھنے والا کورے کاغذ کو قلم کی سیاہی سے سیاہ کر دیتا ہے یوں اس نسبت سے یہ لکھائی ’مسودہ‘ کہلاتی ہے۔ 
اب لفظ ’تحریر‘ پر غور کریں اسے حُر(آزاد) اور حُریت (آزادی) سے نسبت ہے۔ اصلاً کسی غلام اور اُس کے مالک کے درمیان لکھا جانے والا شرائط نامہ ’تحریر‘ کہلاتا ہے۔ چوں کہ شرائط نامہ لکھا جاتا تھا اسی لیے ’تحریر‘ کے معنی ہی لکھنے لکھانے کے ہوگئے۔ 
غلام کی رعایت سے عرض ہے کہ اردو میں اس کے معنی خدمت گار اور دائمی ملازم کے ہیں مگر عربی ’غلام‘ کے معنی نو خیز لڑکے کے ہیں چوں کہ زمانہ قدیم میں خدمتگاری پر نوعمر لڑکے مامور ہوتے تھے اس لیے فارسی اور اردو میں ’غلام‘ اپنے اصل معنی کے برخلاف مجازی معنی میں زیادہ مشہور ہوگیا۔ اب غلام کی رعایت سے ’اجیت سنگھ بادل‘ کا ایک خوب صورت شعر ملاحظہ کریں: 
ان کے ادنیٰ غلام ہو کر بھی 
ہم رہے خاص، عام ہو کر بھی

شیئر: