Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان حلال اشیا کی عالمی مارکیٹ سے باہر کیوں ہے؟

ماہرین کے مطابق پاکستان میں میٹ پراسیسنگ پلانٹ لگانا دیگر ممالک کی نسبت ایک مہنگا عمل ہے (فوٹو: اے ایف پی)
عالمی مارکیٹ میں حلال مصنوعات کی برآمدات کا حجم تین کھرب ڈالر سالانہ ہے جس میں ایک تہائی حصہ کھانے پینے کی اشیا کا ہے۔
 حیران کن طور پر حلال اشیا برآمد کرنے والے دس اولین ممالک میں صرف ترکی مسلمان ملک ہے جب کہ حلال اشیا کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ غیر مسلم ممالک سے ہوتی ہے۔
حلال اشیا میں فارما، کاسمیٹکس، فوڈ اینڈ بیوریجز شامل ہیں جس میں سب سے زیادہ حصہ حلال گوشت کی برآمدات کو حاصل ہے۔
برازیل وہ ملک ہے جو سب سے زیادہ حلال گوشت برآمد کرتا ہے جبکہ انڈیا دوسرے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر اٹھارہواں ہے۔
فوڈ ٹیکنالوجسٹ عثمان غنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان نے حلال اشیا کے سٹینڈرڈز بنانے پر تو کافی کام کیا ہے اور اس حوالے سے کئی کاسمیٹکس اور فارما پراڈکٹس کے حلال سرٹیفیکیشن کے پیرائے مرتب کیے ہیں البتہ برآمدات کے موافق حالات اور بہتر انویسٹمنٹ کی رہنمائی نہ ہونے کے باعث پاکستانی مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز  حلال مارکیٹ سے بہتر طور پر فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
پاکستان ایک زرعی ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے لیکن زراعت سے جڑے لائیو سٹاک کے شعبے کو وہ مراعات حاصل نہیں جو برآمدات بڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔
جہاں ایک طرف پاکستان میں میٹ پراسیسنگ پلانٹ لگانا دیگر ممالک کی نسبت ایک مہنگا عمل ہے وہیں جانوروں کی افزائش کے لیے مناسب لائیو سٹاک فارمنگ نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں کی فراہمی کا بھی مسئلہ ہے۔

برازیل وہ ملک ہے جو سب سے زیادہ حلال گوشت برآمد کرتا ہے جبکہ انڈیا دوسرے نمبر پر ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس بارے میں عثمان غنی کہتے ہیں کہ ’جو پلانٹ لگے ہیں وہ بھی اپنی مکمل صلاحیت پر کام نہیں کرتے کیوں کہ ملک میں اتنے جانور ہی موجود نہیں۔ اس کی وجہ یہاں لائیو سٹاک کی فارمنگ نہ ہونا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جانور مہنگے ہیں۔ تو ایسے میں کہ جب پلانٹ بھی مہنگا لگے، جانور بھی نسبتاً مہنگا ہو اور مہارت والے مزدور بھی مشکل سے ملتے ہوں، تو پراڈکٹ کی قیمت یقیناً بڑھ جاتی ہے، اور عالمی مارکیٹ کے ریٹ سے مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان حلال اشیا کی بین الاقوامی مارکیٹ میں اتنا پیچھے ہے۔‘
حلال مصنوعات کی برآمدات میں حکومت کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں حلال اشیا کی تصدیق کرنے والی اتھارٹی کا قیام ہی 2015 میں عمل میں آیا۔ جبکہ انڈسٹری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اتھارٹی تاحال مکمل طور پر فعال اور متحرک نہیں ہو سکی۔
کراچی میں قائم گلوبل حلال سروس کے ڈائریکٹر رانا اویس نے اردو نیوز کو بتایا کہ عالمی منڈیوں میں حلال اشیا فراہم کرنے والے ممالک میں حلال سرٹیفیکیشن پر کافی شکوک و شبہات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ باہر کے ممالک میں حلال سرٹیفیکیشن کی مناسب اتھارٹی قائم نہیں جبکہ یورپی ممالک میں بھی اس حوالے سے قانون سازی ایسی نہیں کہ حلال سرٹیفیکیشن کو چیلینج کیا جا سکے۔
’اس کے برعکس پاکستان میں اس حوالے سے خاصا کام ہوا ہے اور فوڈ اینڈ بیوریجز کے علاوہ بھی متعدد اشیا کی حلال سرٹیفیکیشن کے لیے سٹینڈرڈز مرتب کیے گئے ہیں۔‘

حلال اشیا کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ غیر مسلم ممالک سے ہوتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

آل پاکستان میٹ پروسیسرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نصیب سیفی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان گوشت برآمد کر کے 90 ارب تک کا زرمبادلہ کما سکتا ہے البتہ اس کے لیے چند بنیادی اقدامات ضروری ہیں، جیسے کہ زندہ جانوروں کی برآمدات پر پابندی، لائیو سٹاک سمگلنگ کی روک تھام، جانوروں کی نسل بڑھانے کے لیے مادہ کو ذبح کرنے پر پابندی، حکومتی سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ۔‘
نصیب سیفی کہتے ہیں کہ لائیو سٹاک فارمنگ کے شعبے میں خاصی محنت کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف جانوروں کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے بلکہ ان کی صحت مند افزائش ممکن ہو، فی الوقت مارکیٹ میں دستیاب جانوروں کی صحت بھی خاصا مسئلہ رہتی ہے اور عالمی مارکیٹ کے معیار کے مطابق نہیں۔
’ایکسپورٹر اور فارمر کے بیچ اس خلیج کو پُر کرنے کے لیے حکومتی سرپرستی اور پالیسی درکار ہو گی۔‘
پاکستان میں فوڈ پراسیسنگ انڈسٹری پر تبصرہ کرتے ہوئے عثمان غنی کا کہنا تھا کہ یہاں اگر کوئی پلانٹ لگا بھی لے تو اس کے پاس زیادہ سے زیادہ بیچنے کو یہی ہوتا ہے کہ وہ صاف ستھرا گوشت فراہم کرے گا۔
’المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں صاف ستھرا معیاری گوشت بھی ایک آسائش ہے جبکہ بیرون ممالک میں یہ لازم جُز ہے۔ ایسے میں پاکستانی فوڈ پراسیسنگ کمپنی کے پاس کوئی ویلیو ایڈیڈ پراڈکٹس ہی نہیں ہوتیں کہ وہ عالمی ایکسپورٹرز کا مقابلہ کر سکیں، سو وہ بس مقامی مارکیٹ تک ہی محدود رہتے ہیں۔‘

شیئر: