Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانمار میں ’استحکام یقینی بنانے کے لیے‘ فیس بک بلاک

فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا گیا ہے (فوٹو: روئٹرز)
میانمار کی فوج نے فیس بک اور دیگر پیغام رسانی کی سروسز کو ’استحکام کو یقینی بنانے کے لیے‘ بلاک کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزارت برائے اطلاعات و نشریات نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’فیس بک سات فروری تک بلاک رہے گی۔‘
وزارت نے ایک خط میں بتایا ہے کہ ’ابھی جو لوگ ملک کے استحکام کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں وہ فیس بک کے ذریعے جھوٹی خبریں اور گمراہ کن معلومات پھیلا رہے ہیں۔‘
یکم فروری کو میانمار کی فوج نے تصدیق کی تھی کہ اس نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
میانمار کے عوام نے اس اقدام کی مخالفت کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور خاص طور پر فیس بک پر سول نافرمانی کے حوالے سے منصوبے شیئر کیے۔
کچھ افراد کو ابھی بھی فیس بک تک رسائی حاصل ہے اگرچہ اسے استعمال کرنے کی رفتار قدرے کم ہے جبکہ کچھ پراکسی وی پی این کے ذریعے اسے استعمال کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو فیس بک اور انٹرنیٹ کے جائزہ کاروں نے تصدیق کی ہے کہ سروس فراہم کرنے والوں کو کچھ سروسز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے جن میں فیس بک، اس کی میسیجنگ ایپ، واٹس ایپ اور انسٹاگرام شامل ہیں۔
کمپنی کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ ابھی کچھ لوگوں کو فیس بک تک رسائی نہیں مل رہی۔‘

میانمار کے عوام نے اس اقدام کی مخالفت کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور خاص طور پر فیس بک پر سول نافرمانی کے حوالے سے منصوبے شیئر کیے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’ہم حکام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ یہ سروس بحال کریں تاکہ میانمار کے افراد اپنے خاندانوں اور دوستوں سے بات کر سکیں اور اہم معلومات تک انہیں رسائی حاصل ہو سکے۔‘
نیٹ بلاکس جو دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی بندش پر نظر رکھتا ہے، کا کہنا ہے کہ میانمار میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والے آپریٹرز کو رسائی نہیں مل پا رہی۔‘
میانمار کے آرمی چیف من آنگ ہلینگ کے اقتدار سنبھالنے پر عالمی سطح پر ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ صورتحال کو پہلے کی طرح معمول پر لانے کے لیے میانمار کے جنرلز پر دباؤ ڈالیں گے۔ ’ہم اس بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے وہ سب کچھ کریں گے جو کر سکتے ہیں۔‘

شیئر: