Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانمار میں فوج کے اقتدار سنبھالنے پر عالمی ردعمل، سوچی کی احتجاج کی اپیل

فوج نے بیان میں کہا ہے کہ ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ فوٹو: روئٹرز
میانمار کی فوج کی طرف سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے اور برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کو حراست میں لینے پر عالمی سطح پر ردعمل سامنے آ رہا ہے، جبکہ آنگ سان سوچی نے کارکنان سے کہا ہے کہ وہ اس عمل کے خلاف احتجاج کریں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک نے سیاسی قیادت کی گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ایک بیان آنگ سان سوچی کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’میں لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ اسے تسلیم کر لیں اور فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کریں۔‘

 

یورپی یونین
اے ایف پی کے مطابق یورپی کمیشن کے صدر اور سفارت کار نے میانمار میں فوج کی جانب سے حکومتی کنٹرول ہاتھ میں لینے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان تمام افراد کو رہا کیا جائے جن کو مختلف چھاپوں میں ملک بھر سے گرفتار کیا گیا۔
یورپ میانمر کا تیسرا بڑا کاروباری شراکت دار ہے اور اس کی جانب سے اس کو کاروباری لحاظ سے بہت اہمیت دی گئی ہے جس کے بارے میں اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اس کو ہٹا لیا جائے، تاہم ہو سکتا ہے یہ فوری نہ ہو اور اس میں کچھ وقت لگے۔
امریکہ
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکہ ہر اس اقدام کی مخالفت کرتا ہے جس سے میانمار کے حالیہ الیکشن کے نتائج پر اثر پڑے اور جمہوری عمل کو نقصان ہو۔‘ 
آسٹریلیا
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ ماریز پین نے آنگ سان سوچی اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم میانمار کی قومی اسمبلی کے اجلاس کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں جو نومبر 2020 کے الیکشن کے نتائج کے مطابق ہو۔‘
برطانیہ
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے فوجی بغاوت اور آن سان سوچی کو حراست میں لیے جانے کی مذمت کی ہے۔
ان کے مطابق ’عوام کے ووٹ کی عزت کی جانی چاہیے اور سول قیادت کو رہا کیا جائے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بیان میں سیاسی قیادت کی گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کی ایک ٹویٹ کے مطابق مطابق ’عوام کے ووٹ کی عزت کی جانی چاہیے اور سول قیادت کو رہا کیا جائے۔‘
چین
چین جو مسلسل اقوام متحدہ کی میانمر میں مداخلت کا ناقد رہا ہے، کی طرف فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اختلافات کا حل ڈھونڈیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ ونبن نے ایک پریس بریفینگ میں کہا کہ ’چین میانمر کا دوست اور پڑوسی ہے اور امید ہے کہ تمام پارٹیز آئین اور قانونی فریم ورک کے نیچے اپنے تمام اختلافات کا حل ڈھونڈ لیں گی اور سیاسی استحکام کا تحفظ کیا جائے گا۔‘
روس
ترجمان دمٹری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ’روس میانمر میں ہونے والی تبدیلیوں کو مشاہدہ کر رہا ہے تاہم اس حوالے سے کسی حتمی بات کا تعین کرنا قبل از وقت ہو گا۔‘
اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوٹریس نے میانمار میں آن سوچی، صدر ون مائنٹ اور دیگر قائدین کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔
ترجمان سٹیفن دوجیرک کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’میانمر میں بننے والی صورت حال سے جمہوری اصلاحات کو شدید دھچکا لگا ہے۔‘

میانمار کی پارلیمنٹ کو جانے والے راستے کو بند کر کے بکتر بند گاڑی کھڑی کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس سے قبل میانمار کی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ 
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فوج کے زیرانتظام ٹیلی ویژن چینل میاودی پر فوج کی جانب سے بنائے گئے آئین کی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک میں ایک سال کے لیے قومی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
ٹی وی کے مطابق فوج کے اقتدار سنبھالنے کی وجہ حکومت کی الیکشن میں فراڈ کی تحقیقات کرانے میں ناکامی ہے جبکہ فوج نے کورونا کے باعث گزشتہ برس نومبر میں انتخابات ملتوی کرنے کا بھی کہا تھا۔
میانمار میں گزشتہ سال نومبر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نے کامیابی حاصل کی تھی جس کے بعد فوج اور ان کے درمیان  اختلافات سامنے آئے تھے۔

آنگ سان سوچی نے لوگوں سے احتجاج کی اپیل کی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اے ایف پی کو نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کے ترجمان نے بتایا کہ پیر کو علی الصبح آنگ سان سوچی اور صدر ون مینٹ کو دارالحکومت میں حراست میں لیا گیا۔
ترجمان کے مطابق فوج نے یہ اقدام الیکشن کے بعد پیر کو پارلیمنٹ کے پہلے سیشن کے شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل کیا گیا۔
دارالحکومت نیپئٹا میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سروس معطل ہے۔ اور ملک بھر میں تمام بینکوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

شیئر: