Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹچ سکرین والے آلات بچوں پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمر بچے ٹچ سکرین والے آلات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے باآسانی ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٹچ سکرین رکھنے والی ڈیوائسز پر گیمنگ یا دیگر وجوہات کی بنا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے باآسانی ذہنی خلفشار اور عدم توجہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آنکھوں کی جانچ پڑتال کرنے والے جدید آلات کے ذریعے برطانوی اور سویڈش ماہرین نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ  جو بچے روزانہ ٹچ سکرین کا استعمال کرتے ہیں اگر ان کے اردگرد کچھ نظر آئے یا کوئی حرکت ہو تو وہ بہت جلد اس کی طرف دیکھتے ہیں۔
تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایسے بچے ان بچوں سے کم توجہ اور ذہنی یکسوئی کے مالک تھے جو ٹچ سکرین آلات کا استعمال نہیں کرتے۔

ٹچ سکرین کے منفی اثرات کا جائزہ

ایک حالیہ مطالعے کے نتائج نے بھی بچوں میں ٹچ سکرینز کے بڑھتے استعمال اور اس کا نقصانات کا جائزہ لیا ہے۔
برطانوی ٹیلی کیمونی کیشن اتھارٹی کے مطابق 63 فیصد ایسے بچے موبائل استعمال کر رہے تھے جن کی عمریں تین سے چار سال کے درمیان تھیں۔ ان بچوں نے گھر پہ سمارٹ فونز استعمال کیا، یہ تعداد 2013 کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ تھی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ اضافہ موجودہ وبائی صورت حال کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ  تمام لوگ گھروں پر تھے اس لیے بچوں کو استعمال کے لیے زیادہ موبائل مل گئے تھے۔
لندن یونیورسٹی کے سینٹر برائے دماغی و علمی ترقی کے محقق پروفیسر ٹم سمتھ نے کہا ہے کہ ’حالیہ برسوں میں چھوٹے بچوں میں سمارٹ فونز اور ٹیبلٹ کے استعمال میں تیزی آئی ہے۔‘

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچے ٹچ سکرین کے زیادہ استعمال سے ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں (فوٹو: فری پک)

ماہرین کے مطابق زندگی کے ابتدائی چند برسوں میں بچوں کے لیے اپنی توجہ پر قابو رکھنا، ذہنی خلفشار سے دور رہنا اور اس صلاحیت کو اپنی شخصی مہارتوں کا حصہ بنانا بعد میں تعلیمی حوالوں سے اہم ہوتا ہے۔
پروفیسر ٹم سمتھ نے مزید بتایا کہ ’چھوٹے بچوں میں ٹچ سکرین کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ ان کی ذہنی بڑھوتری کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس سے قبل اس دعوے کے کوئی تجرباتی ثبوت میسر نہیں تھے۔

کیا شیر خوار بچے متاثر ہوتے ہیں؟

پروفیسر سمتھ اس وقت ایک ’ٹیبلٹ‘ منصوبے کی قیادت کر رہے ہیں، جوشیرخوار بچوں کے آلات استعمال کرنے اور ان سے متاثر ہونے پر تحقیق کر رہا ہے۔
محققین نے 12 ماہ کی عمر کے 40 شیرخوار بچوں کا مطالعہ کیا۔ ان میں سے چند ایسے بچے منتخب کیے گئے جنہوں نے ٹچ سکرین کو مستقل طور پر استعمال کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں دوسرے  بچوں نے سکول کے زمانے تک انہیں دیگر بچوں سے کم استعمال کیا تھا۔

والدین سے سوالات

اس تحقیق کے سلسلے میں بچوں کی 30 ماہ تک نگرانی کی گئی۔ اس دوران انہیں تین بار لیبارٹری میں بھی چیک کیا گیا۔ ان بچوں کی عمریں 12 ماہ، 18 ماہ اور 42 ماہ تھیں۔
والدین نے ان بچوں کا ٹچ سکرین ڈیوائسز استعمال کرنے کا ٹائم ہر مرتبہ چیک اپ سے قبل باریک بینی سے نوٹ کیا تھا۔ بچوں کی ڈیوائسز استعمال کرنے کی عادت سے متعلق والدین سے آن لائن بھی سوال کیا گیا۔

برطانوی ٹیلی کیمونی کیشن اتھارٹی کے مطابق بچوں کے سمارٹ فون استعمال کرنے کی تعداد 2013 کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ رہی (فوٹو: فری پک)

ہر مرتبہ لیبارٹری کے وزٹ کے دوران بچوں نے کمپیوٹر کے فنکشنز کے ساتھ کام کرنے کے لیے Tobii TX300 آئی ٹریکر کا استعمال کیا
 تا کہ یہ جانا جا سکے کہ کمپیوٹر سکرین پر مختلف مواقع پر کوئی چیز ظاہر ہو تو وہ کتنے وقت میں اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔
محققین نے اندازہ لگایا کہ سکرین پر نظر آنے والی اشیا کو چھوٹے بچے کتنی جلدی دیکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ بچے توجہ بٹانے والی والی اشیا کو کتنا نظر انداز کر سکتے ہیں۔ نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شیرخوار اور کمسن بچے جنہوں نے ٹچ سکرین زیادہ استعمال کی تھی وہ اشیا نمودار ہوتے ہی تیزی سے ان کی جانب دیکھتے تھے۔ یہ بچے ان اشیا کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ جن بچوں نے ٹچ سکرین کم  استعمال  کی تھی وہ ان اشیا کو نظر انداز کر دیتے تھے۔

نتائج میں شکوک

سویڈن کے سٹاک ہوم میں واقع کرولینسکا انسٹی ٹیوٹ کی محقق ڈاکٹر انا ماریا پرتگال کا کہنا تھا ’ہم فی الحال یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ ٹچ سکرین کے استعمال کی وجہ سے بچوں کی توجہ میں خرابی پیدا ہو ئی، ممکن ہے جو بچے توجہ کی خلفشاری کا شکار ہوئے ہوں وہ ٹچ  ڈیوائسز کے فیچرز کی طرف زیادہ توجہ مبذول کرتے ہوں۔‘
تحقیقاتی ٹیم کے ایک فریق کا یہ کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ جو بچے بہت زیادہ سمارٹ فون استعمال کرتے تھے، ان کی توجہ زیادہ منتشر ہوتی تھی۔ اس بات کو مثبت یا منفی خصلت، دونوں کہا جا سکتا ہے۔
تحقیقاتی ٹیم فی الحال یہ منصوبہ بنا رہی ہے کہ سکرین سے متعلق بچوں کے ان رحجانات اور رویوں کے بارے میں جانا جا سکے جو وہ تجربہ گاہ کے باہر برقرار رکھتے ہیں۔

تحقیق کے لیے بچوں کے والدین سے بھی سوالات پوچھے گئے (فوٹو: فری پک)

نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر ریچل بیڈفورڈ کہتی ہیں کہ ’ہمیں اس کے بعد مزید یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ٹچ سکرینوں پر توجہ چیک کرنے کا یہ انداز کس طرح حقیقی دنیا میں توجہ سے منسلک ہے اور آیا یہ سلوک موافقت کی ایک مثبت علامت ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ فرق ان کی روز مرہ زندگی کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ، کیوں کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے اثرات کے بارے میں بہتر فہم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ پھر اس کے استعمال کا طریقہ وہ رکھا جائے جس سے فوائد میں اضافہ ہو اور منفی نتائج کو کم  کیا جا سکے۔

سرخ اور نیلے سیب پر تجربہ

گذشتہ سال ’ٹیبلٹ‘ ریسرچ  جو JAMA Pediatrics میں شائع ہوئی، میں یہ انکشاف کیا گیا تھا جو بچے ٹچ سکرین روزانہ استعمال کرتے ہیں وہ  آنکھوں کے ذریعے انجام دیے جانے والے کاموں میں تیز ہوتے ہیں۔
اس مطالعے کے مطابق شیرخوار بچوں کے ایک گروپ پر تحقیق کی گئی۔ اس دوران 18 تا 42 ماہ کی عمر کے بچوں کو کمپیوٹر کے حوالے سے ایک کام دیا گیا۔

محققین نے اندازہ لگایا کہ سکرین پر نظر آنے والی اشیا کو چھوٹے بچے کتنی جلدی دیکھتے اور توجہ بٹانے والی والی چیزوں کو کتنا نظر انداز کر سکتے ہیں (فوٹو: فری پک)

بچوں کو پہلے ’آسان‘ تلاش کرنے کی تربیت دی گئی۔ اس عمل کے دوران بچوں کو مختلف قسم کے نیلے سیبوں میں سرخ سیب ڈھونڈنا تھا۔ اسی طرح کٹے ہوئے سرخ سیبوں میں نیلے سیب تلاش کرنا تھے، یہ ایک ’مشکل‘ تجربہ تھا۔
آئی ٹریکر نے ان بچوں کی نگاہوں کو جانچا اور بچوں کو سرخ سیب ملنے پر کمزور بتایا، جس کا مطلب ہے کہ وہ یہ کام سرانجام دے سکتے تھے لیکن زبانی اس عمل کی تفصیل نہیں بتا سکتے تھے۔
ڈاکٹر بیڈ فورڈ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’یہ واضح ہوا کہ 18 ماہ کے بچے اور ساڑھے تین برس کے بچوں میں جو ٹچ سکرین زیادہ استعمال کرتے تھے، ان کی کارکردگی کم سکرین استعمال کرنے والوں سے بہتر تھی۔{

شیئر: