Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر ٹیچنگ ہسپتال: پوسٹ مارٹم، ریپ ٹیسٹ کی فیس کی تجویز مسترد

ترجمان خیبر ٹیچنگ ہسپتال نے کہا ہے کہ ’انہیں اعلٰی معیار کی لیبارٹری کے لیے فنڈز درکار ہیں‘ (فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے صوبے کے دوسرے بڑے ہسپتال خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کو پوسٹ مارٹم اور فرانزک فیس لینے کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز نے فرانزک لیبارٹری میں ہونے والے ٹیسٹوں پر فیس عائد کرنے کی منظوری دی ہے جس کے تحت پوسٹ مارٹم کروانے پر 25 ہزار، جنسی زیادتی کی جانچ پڑتال بھی 25 ہزار روپے اور اسی طرح سرد خانے میں نعش رکھنے، ڈی این اے ٹیسٹ اور جرم میں زخمی ہونے پر میڈیکو لیگل ایگزامینیشن اور زہرخوانی کے ٹیسٹ پر بھی فیس لی جائے گی۔‘
تاہم سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد جمعہ کو صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کو خط لکھ کر تمام فرانزک چارجز ختم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب محکمہ صحت کے خط کے مطابق ہسپتال کے ڈین کو آگاہ کیا گیا ہے کہ 1985 کے رولز آف بزنس کے مطابق میڈیکو لیگل سروس کی فراہمی محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے اور محکمہ یہ سروس مفت فراہم کر رہا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ کیونکہ فرانزک تجزیہ جرائم کے خلاف انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس لیے اس کی مد میں فیس کی وصولی سے نظام انصاف شدید متاثر ہو سکتا ہے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں جہاں پہلے ہی معاشی اور سماجی مسائل کے باعث لوگ اس طرح کی خدمات کے حصول میں مشکلات کا شکار ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ فیس کی وصولی سے شکایت کنندگان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس سے نظام پر اعتماد مجروح ہو گا۔
اس میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت پہلے ہی خیبر ٹیچنگ ہسپتال کو ایک لائن کا بجٹ بغیر کسی تخصیص کے ہسپتال کو فراہم کرتی ہے اور اگر مزید فنڈز درکار ہیں تو اس حوالے سے کیس حکومت کو بھیجا جائے۔
خط کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہسپتال کی طرف سے آٹھ فروری کو بھیجی جانے والی تجاویز کو واپس بھیجا جا رہا ہے تاکہ ہسپتال کا بورڈ آف گورنرز اس پر نظر ثانی کرے۔
اس سے قبل ٹوئٹر پر صوبائی وزیر صحت و قانون نے مقامی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کو مکمل طور پر غلط قرار دیا اور کہا کہ قتل اور جنسی جرائم کے متاثرین سے کسی قسم کی فیس وصول کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے۔
تاہم اخبار کے ایک رپورٹر محمد فہیم نے صوبائی وزیر کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’یہ خبر درست ہے اور ہسپتال کے 29 جون 2021 کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کے پوائنٹس پر مبنی ہے۔ یہ بورڈ کا 60 واں اجلاس تھا اور اس کے منٹس محکمہ صحت کو بھی بھیجے گئے تھے۔‘
خیبر ٹیچنگ ہسپتال نے بھی جمعہ کو اپنی وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’فرانزک فیس کی وصولی عوام سے نہیں بلکہ محکمہ پولیس سے وصول کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ہسپتال میں ڈی این اے اور زہر خورانی کے ٹیسٹ کے لیے اعلٰی معیار کی لیبارٹری ہے جس کے لیے فنڈز درکار ہیں۔ اسی لیے پولیس کے ساتھ مشاورت کے بعد بورڈ نے تجاویز بنا کر محکمہ صحت کو بھیجی تھیں تاکہ ان کا نوٹی فیکیشن کیا جا سکے۔‘
تاہم سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ’پولیس سے فیس کی وصولی کی صورت میں بھی عوام ہی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ عموماً پولیس اس طرح کی فیس لواحقین اور متاثرین سے لے کر ہی دیتی ہے۔‘

شیئر: