پشاور کے ہسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے چھ ہلاکتیں
پشاور کے ہسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے چھ ہلاکتیں
اتوار 6 دسمبر 2020 12:17
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے 48 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے سرکاری ہسپتال خیبر ٹیچنگ ہاسپٹل میں آکسیجن کی کمی کے باعث 6 افراد دم توڑ گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے واقعہ کا نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے 48 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی ہے۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ترجمان فرہاد خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ سنیچر کی رات ہسپتال میں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ’انہوں نے کہا کہ پانچ افراد کورونا آئیسو لیشن وارڈ جبکہ ایک مریض میڈیکل واڑد کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں زیر علاج تھا۔‘
ترجمان نے بتایا کہ ہسپتال میں ایک نجی کمپنی پانچ ہزار لیٹر آکسیجن کا ٹینک فراہم کرتی تھی و کہ گزشتہ ماہ بڑھا کر دس ہزار لیٹر کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ سو کے قریب آکسیجن سلنڈر ہسپتال نے سٹینڈ بائے کے طور پر بھی رکھے ہوئے ہیں لیکن آکسیچن کی ڈیمانڈ میں اضافے کے باعث کمپنی کی جانب سے سپلائی میں تاخیر ہوئی۔‘
فرہاد خان نے کہا کہ ‘ہسپتال میں موجود سو سلنڈرز کو فوری طور پر استعمال میں لایا گیا جس کی وجہ سے اموات کم ہوئی ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق ’خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں کورونا کے لیے سب سے زیادہ بیڈز مختص کیے گئے ہیں اور اس وقت ہسپتال میں سو سے زائد بیڈز کورونا مریضوں کے لیے رکھے گئے ہیں، اسی لیے ہسپتال میں آکسیجن کی مانگ بھی زیادہ ہے۔‘
صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سنیچر کی رات خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی ختم ہونے پر مریضوں کو ہنگامی طور پر ریسکیو سروس کے ذریعے دیگر ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا تاہم اس کے باوجود چھ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’صوبائی حکومت عوام کو یقین دلاتی ہے کہ واقعہ کی شفاف انکوائری ہوگی اور حقائق شفاف طریقے سے سامنے لائے جائیں گے۔‘
تیمور جھگڑا کا کہنا تھا کہ حقائق کو سامنے لا کر ایسے واقعات سے سیکھنا ہے اور سسٹم کو بہتر بنانا ہے۔ ’وفاقی حکومت، این سی او سی سے رابطے میں ہیں۔ حقائق خود عوام کے سامنے رکھیں گے کیونکہ سسٹم کی ساکھ کو برقرار رکھنا ہے۔‘
وزیر صحت خیبر پختونخوا نے اعلان کیا کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز تحقیقات کر کے حقائق سامنے لائیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو صوبائی حکومت آزادانہ تحقیقات کا بھی آغاز کرے گی۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت کامران بنگش کے مطابق واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ کو 48 گھنٹوں کے اندر منظر عام پر لائیں گے۔
’میرا دو سالہ بیٹا زندگی اور موت کی کشمکش میں رہا‘
پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن کی کمی سے ہلاک ہونے والوں میں ایک دو سالہ بچہ سارم خان بھی شامل ہے۔
پشاور کے رہائشی سمیع اللہ خان کا دو سالہ بچہ گزشتہ تین دن سے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں داخل تھا۔
سمیع اللہ خان نے اردو نیوز کو بتایا ’تین روز قبل بچے کو ایک نجی ہسپتال لے کر گئے جہاں پر ڈاکٹرز نے بتایا کہ ہمارے پاس آکسیجن کے سلنڈرز موجود نہیں ہیں آپ انہیں خیبر ٹیچنگ ہسپتال منتقل کر دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ دو دن سے بچہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں داخل تھا جہاں اسے مصنوعی آکیسجن پر رکھا گیا تھا کیونکہ ڈاکٹرز کے مطابق بچے کو قدرتی طور پر سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔
’مجھے رات دو بجے کے قریب گھر والوں نے بتایا کہ بچے کی حالت تشویشناک ہے۔ میں اس وقت انتظار گاہ میں موجود تھا اور وہاں سے جب میں بچے کے پاس گیا تو آکسیجن ماسک تو لگا ہوا تھا لیکن بچے کا سانس اکھڑ رہا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا ’رات کو ایمرجنسی سے ایک آکسیجن سلنڈر منگوا کر بچے کو لگوایا گیا تھا۔ بچے کی حالت دیکھی تو میں نے فوراً وہاں پر موجود سٹاف کو آگاہ کیا، وہاں کوئی ڈاکٹر تو موجود نہیں تھا، نرسز نے آکر دیکھا تو انہوں نے مجھے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن لیکن آپس میں وہ گفتگو کر رہی تھیں کہ آکیسجن ختم ہوچکی ہے اور ابھی تک آکیسجن کے ٹینکس ہسپتال نہیں پہنچے ہیں۔‘
سمیع اللہ خان بتاتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور اس کا علاج ایک نجی ہسپتال سے کروا رہے تھے لیکن کچھ دن قبل ان کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی لیکن وہاں آکسیجن سلنڈر دستایب نہ ہونے کی وجہ سے ہستال انتظامیہ نے مریض کو خیبر ٹیچنگ ہسپتال منتقل کرنے کا کہا تھا۔
سمیع اللہ خان کہتے ہیں ’میرا دو سالہ بیٹا آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً آدھا گھنٹہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہا جس کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔‘