پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے چھوٹے صوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے قومی اسمبلی، سینیٹ اور دونوں صوبائی اسمبلیوں میں موجود خواتین کی کارکردگی باقی صوبوں کی خواتین کی نسبت بہتر رہتی ہے۔
اس وقت دونوں صوبائی اسمبلیوں بالخصوص خیبر پختونخوا میں خواتین بڑا موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔
وفاق کی سطح پر موجودہ اسمبلی کے پہلے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو فافن کی رپورٹ کے مطابق پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے ایجنڈے پر شامل ہونے والے نجی بلوں کا 53 فیصد (74 میں سے 39)، قراردادوں کا 27 فیصد (100 میں سے 27)، توجہ دلاؤ نوٹسوں کا 47 فیصد (108 میں سے 51)، اور سوالات کا 32 فیصد (1772 میں سے 561) خواتین ارکان کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
مشکل وقت میں قیادت سنبھالنے والی پاکستان کی سیاسی خواتینNode ID: 521281
-
شہلا رضا کی برہمی ’خواتین سیاست سے دور رہیں‘Node ID: 527361
-
کیا مسلم لیگ ن خواتین کی جماعت بنتی جا رہی ہے؟Node ID: 533561
واضح رہے کہ موجودہ پارلیمان میں خواتین کا تناسب 20 فیصد ہے جن میں 69 ارکان قومی اسمبلی اور 20 ارکان سینیٹ شامل ہیں۔
موجودہ قومی اسمبلی میں بھی خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی ارکان اسمبلی نفیسہ خٹک، شاندانہ گلزار، شاہدہ اختر علی اور طاہرہ بخاری نمایاں کارکردگی دکھانے والوں میں شامل ہیں۔
بلوچستان سے زبیدہ جلال، عالیہ کامران اور روبینہ عرفان قومی اسمبلی میں فعال نظر آتی ہیں بلکہ زبیدہ جلال تو دوسری مرتبہ وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔
پارلیمانی سیاست میں خواتین کی شمولیت کی جدوجہد
قیام پاکستان کے ساتھ ہی خواتین ارکان نے مقننہ اور اسمبلیوں میں سیاسی شمولیت کا مطالبہ کرتے ہوئے آئین ساز اسمبلی میں پانچ فیصد مخصوص کوٹہ کی تجویز سامنے رکھ دی تھی۔
اسی مطالبے کی بنیاد پر 1956 کے آئین میں خواتین کے لیے 10 نشستیں مخصوص کی گئیں لیکن اس کو عملی شکل نہ مل سکی کیونکہ انتخابات ہی نہیں ہوئے۔
1962کے آئین میں خواتین کے لیے بالواسطہ انتخاب کے ذریعے چھ نشستیں مخصوص کی گئیں۔ 1973 کے آئین میں ایک بار پھر بالواسطہ انتخاب کے ذریعے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے پانچ فیصد نشستیں مخصوص کی گئیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/36496/2021/oath-ceremony-pic-700x450.jpg)
1985 کے غیرجماعتی انتخابات میں خواتین کے لیے قومی اسمبلی کی 20 نشستیں مخصوص تھیں۔ تاہم 1988 کی منتخب اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اگلے 12 سال تک خواتین کے لیے کوئی نشست مخصوص نہیں کی گئی تھی۔
2002 میں پرویز مشرف نے انتخابات کروائے تو خواتین کو قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں 17 فیصد نمائندگی دی گئی۔ جس کے نتیجے میں سینیٹ میں 17، قومی اسمبلی میں 60، پنجاب میں 66، سندھ میں 24، خیبر پختونخوا میں 26 اور بلوچستان میں 11 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کی گئیں۔ جو عام انتخابات میں براہ راست انتخابات میں حاصل کی گئی نشستوں کے تناسب سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔
اسی فارمولے کے تحت 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو 28 نشستیں ملیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو 16، پاکستان پیپلز پارٹی کو نو اور متحدہ مجلس عمل کو خواتین کی دو نشستیں ملیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کو ایک ایک نشست حاصل ہوئی۔
اس کے علاوہ آٹھ خواتین پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے براہ راست انتخابات میں حصہ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچی ہیں۔
خواتین کی اسمبلیوں میں آمد کے اثرات
دی وومن موومنٹ ان پاکستان نامی کتاب کی مصنفہ سکالر عائشہ خان کا کہنا ہے کہ ’اسمبلیوں میں خواتین، مردوں کی نسبت زیادہ باقاعدگی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حصہ لیتی ہیں۔ قانون سازی کے میدان میں ان کی کارکردگی ان کے تناسب کے مقابلے میں زیادہ رہی۔ خواتین نے نجی ارکان کے تقریباً نصف بل اور ایک تہائی قراردادیں پیش کیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/March/36496/2021/dispatchnewsdesk.jpg)
ان کے مطابق ’قانون سازی کے میدان میں خواتین کی یہ کارکردگی بلاشبہ ان کی کامیابی ہے حالانکہ مرد ارکان انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے، انہیں آزادانہ حیثیت میں مالی وسائل کی کمی درپیش رہتی ہے۔ پارٹی کی طرف سے انہیں بھرپور مدد نہیں ملتی اور بعض اوقات تو کھلم کھلا امتیاز اور ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔‘
حقوق نسواں کے لیے کوشاں ثناء گلزار کا کہنا ہے کہ ’خواتین ارکان نے گھریلو تشدد کی روک تھام، جنسی ہراسانی، خواتین مخالف سرگرمیوں کو رکوانے، تیزاب کے جرائم، ہندو شادی، شادی کے لیے یکساں عمر کے تعین کے قوانین منظور کرانے کے لیے بھی بھرپور طریقے سے کام کیا۔‘
’ بیشتر صورتوں میں خواتین نے یہ بل نجی ارکان کے طور پر پیش کیے، کیونکہ ان کی جماعتیں ان پر جوابی ردعمل کے ڈر کے مارے ان کی کھلم کھلا حمایت نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ یوں مختلف جماعتوں کی خواتین ارکان کی یکجہتی کی بدولت وہ یہ بل منظور کرانے میں کامیاب رہیں۔‘
خیبر پختون خوا کی خواتین ارکان اور ان کی کارکردگی
خیبر پختون خوا سے اس وقت سینیٹ میں تین خواتین موجود ہیں جن میں سے دو کا تعلق پیپلز پارٹی جبکہ ایک کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔
اگرچہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں خواتین ارکان کی بلحاظ صوبہ کارکردگی کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا لیکن انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین ارکان نمایاں نظر آتی ہیں۔
سینیٹر مہر تاج روغانی اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر جمہوریت، پارلیمانی روایات، انصاف اور تعلیم کے شعبے پر ہونے والے مباحثوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/36496/2021/dkpntjhxgac2vd-.jpg)
سیاسی معاملات اور گورننس کے امور میں سینیٹر روبینہ خالد پر اپوزیشن جماعتیں بھی انحصار کرتی ہیں۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں خیبر پختونخوا سے خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر آٹھ ایم این اے منتخب ہوئیں جن میں سے چھ کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ ایک ایک رکن ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام سے ہیں۔
قومی اسمبلی میں نفیسہ خٹک، ساجدہ بیگم، شاہدہ اختر علی اور شاندانہ گلزار کی کارکردگی نمایاں ہے۔ شاہدہ اختر علی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی متحرک ترین رکن سمجھی جاتی ہیں۔
نفیسہ خٹک اور ساجدہ بیگم سماجی مسائل پر سوالات، توجہ دلاؤ نوٹسز اور تحاریک پیش کرتی ہیں جبکہ شاندانہ گلزار پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت ہونے کی حیثیت سے ایوان میں حکومت کی جانب سے بڑی موثر آواز سمجھی جاتی ہیں۔
2019 میں شاندانہ گلزار دولت مشترکہ کی خواتین پارلیمنٹیرینز کی تنظیم کی صدر بھی منتخب ہوئی تھیں۔
خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی میں خواتین ارکان کی تعداد 27 ہے جن میں ایک براہ راست منتخب ہوکر ایوان میں پہنچی ہیں جبکہ 26 مخصوصی نشستوں پر ہیں۔ ان 27 میں سے دس خواتین ایسی ہیں جو پہلی بار اسمبلی میں آئی ہیں اور ماضی میں بلدیاتی نظام کا حصہ رہ چکی ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی اپنی رپورٹ کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر اگرچہ جماعت اسلامی کے رکن عنایت اللہ خان سب سے آگے ہیں لیکن ان کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی شگفتہ ملک، جماعت اسلامی کی حمیرا خاتون اور جمعیت علمائے اسلامی کی نعیمہ کشور کارکردگی میں مرد ارکان سے کارکردگی کے لحاظ سے بہت آگے ہیں۔
گزشتہ کئی اسمبلیوں کی کوریج کرنے والے پشاور کے سینئیر صحافی لحاظ علی کے مطابق ’خیبر پختونخوا کی موجودہ صوبائی اسمبلی میں سب سے متحرک خواتین ایوان میں موجود ہیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/March/36496/2021/56bec09c93667.jpg)
’ایوان میں سب سے زیادہ حاضری بھی خواتین کی ہوتی ہے۔ کورم کی کمی بھی خواتین ہی پوری کرتی ہیں۔ اگر سابق تین اسمبلیوں سے موازیہ کیا جائے تو موجودہ اسمبلی سب سے بہتر ہے۔‘
’قانون سازی، توجہ دلاؤ نوٹس، بچوں اور خواتین کے مسائل پر تو یہ خواتین ہمیشہ کھڑی ہوتی ہیں۔‘
بلوچستان کی خواتین ارکان اور ان کی کارکردگی
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس وقت بلوچستان سے چار چار ارکان موجود ہیں جن میں ایک حال ہی میں وفات پانے والی سینیٹر کلثوم پروین کی جگہ پر آئی ہیں۔
سینیٹر کلثوم پروین اپنی کارکردگی کی وجہ سے مسلسل تین مرتبہ سینیٹ کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ وہ بلوچستان کے مسائل کے علاوہ ملکی سیاسی امور پر بھی کھل کر بات کرتی تھیں۔
ان کے علاوہ سینیٹ میں موجودہ بلوچ خواتین ارکان کی کارکردگی اس لحاظ سے تو بہتر ہے کہ وہ سوالات اور تحاریک کی صورت میں پارلیمانی بزنس کا حصہ بنتی ہیں لیکن سینیٹ مباحثوں میں وہ اتنی فعال نظر نہیں آتیں۔
اس کے برعکس قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام ف کی عالیہ کامران ایوان میں سب سے زیادہ حاضر رہنے والی خواتین میں شمار ہوتی ہیں جن کی حاضری گزشتہ دور حکومت میں سو فیصد تھی جبکہ وہ اب بھی پابندی کے ساتھ اجلاسوں میں شرکت کرتی ہیں۔
وہ سوالات، قانون سازی، توجہ دلاؤ نوٹسز اور قرار دادیں پیش کرنے میں بھی سب سے آگے رہتی ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/36496/2021/tanveershahzad.jpg)