انہوں نے کہا کہ ’مصر اس بات کی توقع کرتا ہے کہ جو بھی مصر کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہے، تو اسے بین الاقوامی قوانین اور اچھے ہمسائے کی پالیسی کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت کی کوششوں سے گریز کرنا چاہیے۔‘
ترکی نے اعلان کیا تھا کہ 2013 کے بعد پہلی مرتبہ اس کا مصر کے ساتھ سفارتی رابطہ ہوا ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ تعلقات میں مزید بہتری آنے سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی تنازعات کو دور کرنے کی ضرورت ہوگی۔
عرب نیوز کے مطابق ترک وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے سرکاری نیوز ایجنسی اناطولو کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’ہمارے انٹیلیجنس اور وزارت خارجہ کی سطح پر مصر کے ساتھ رابطے ہیں۔ سفارتی سطح پر ہمارے رابطے شروع ہو چکے ہیں۔‘
مولود چاووش اوغلو نے کہا ہے کہ کسی بھی فریق نے تعلقات کی بہتری کے لیے شرائط نہیں رکھی ہیں۔
لندن میں انقرہ پالیسی سینٹر کے نمائندے سیلن ناسی نے عرب نیوز کو بتایا ’اس بات کا بھرپور امکان ہے کہ تعلقات بحال ہونے کے بدلے مصر، ترکی سے مطالبہ کرے کہ وہ اخوان المسلمین سے تعلقات پر نظر ثانی کرے۔‘
مصر اور ترکی کے درمیان تعلقات 2013 میں سابق صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد کشیدہ ہوئے۔
ان واقعات کے بعد اخوان المسلمین کے متعدد ارکان ترکی فرار ہوئے۔
اس کے بعد سے علاقائی کشیدگی میں مصر اور ترکی اکثر مخالف فریقوں کی حمایت کرتے رہے، خاص طور پر لیبیا جنگ اور مشرقی بحیرہ روم کے تنازعوں کے دوران۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر تعلیم اور تجزیہ کار سیموئیل رمانی کا کہنا ہے کہ مصر کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا یہ اقدام ترکی کی عرب ریاستوں کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کی وسیع تر پالیسی کا ایک حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترکی ممکنہ طور پر قطر کے ساتھ تعلقات بہتر کر رہا ہے۔
تاہم ماہرین کو شبہ ہے کہ آیا انقرہ اخوان المسلمین کے لیے اپنی حمایت کم کرے گا، جس کو قاہرہ ایک دہشت گرد تنظیم مانتا ہے۔
سیموئیل رمانی کے خیال میں اخوان المسلمین کے معاملے پر ترکی مصر کے ساتھ غیر رسمی طور پر وعدہ کرے گا اور وہ عوامی سطح پر اعلانات سے متعلق بھی محتاط رہے گا۔