Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کی ڈسکہ الیکشن کالعدم قرار دینے کی استدعا دوبارہ مسترد

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ الیکشن ہو رہا تھا آئی جی اور چیف سیکرٹری کیسے سو سکتے تھے؟ (فوٹو: روئٹرز)
سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرنے کی پی ٹی  آئی کی استدعا دوبارہ مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں جمعے کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ جب تک ٹرائل چل رہا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا جائے، اس پر عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل کی استدعا دوبارہ مسترد کردی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کا فائدہ نہیں، اگلی سماعت پر اس نکتے پر غور کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘
بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر  کا کہنا تھا کہ دوبارہ الیکشن کا حکم معطل کر بھی دیں تو کچھ نہیں ہوگا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں ڈسکہ الیکشن میں قانون پر عمل نہیں ہوا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’کیا ہوائی فائرنگ اتنا شدید مسئلہ ہے کہ دوبارہ الیکشن ہوں؟ الیکشن کمیشن نے پولیس کے عدم تعاون کا غصہ نکالا۔ پولیس کے خلاف تو کارروائی بھی ہوسکتی ہے پولیس کا عدم تعاون دوبارہ پولنگ کا جواز نہیں ہوسکتا۔‘
جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن ہو رہا تھا آئی جی اور چیف سیکرٹری کیسے سو سکتے تھے؟
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق قانون کی خلاف ورزی پردوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا اور پیش کردہ نقشے کے مطابق 20 پریزائیڈنگ افسران صبح تک غائب تھے جب کہ تمام کشیدگی ڈسکہ کے شہری علاقے میں ہوئی۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ ’کچھ پریزائیڈنگ افسران نے اپنے فون بند کردیے اور اکٹھے غائب ہوگئے، تمام غائب ہونے والے پریزائیڈنگ افسر صبح یکایک ایک ساتھ نمودار ہوئے، کیا تمام پریزائیڈنگ افسران غائب ہوکر ناشتہ کرنے گئے تھے؟‘

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک ڈی ایس پی کا بہانہ کرکے پورا الیکشن متنازع قرار دے دیا (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک ڈی ایس پی کا بہانہ کرکے پورا الیکشن متنازع قرار دے دیا، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 9 کےتحت الیکشن کمیشن نے انکوائری کرانا تھی۔
جسٹس عمر نے کہا کہ ’الیکشن کو کالعدم کرنا انتظامی فیصلہ تھا اور انتظامی فیصلہ فوری طور پر کرنا پڑتا ہے۔‘ اس پر پی ٹی آئی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ انتظامی فیصلے کے لیے انکوائری کا ہونا ضروری تھا۔
اس موقع پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے پر ایک کروڑ 90 لاکھ کا خرچہ آتا ہے، جسٹس عمر نے کہا کہ دوبارہ چیک کریں یہ اخراجات کم لگتے ہیں، ایک کروڑ 90 لاکھ تو صرف ایک امیدوار کا خرچ ہوگا، یہ جاننا اہم ہے کہ الیکشن شفاف، منصفانہ اورقانون کے مطابق ہوئے یا نہیں۔

شیئر: