بھاری جسم، بزرگانہ سفید داڑھی، چال میں لنگڑاہٹ اور ہاتھ میں لاٹھی۔ یہ بابا غلام فرید ہیں جو تقریباً ستائیس سال پہلے پاک پتن سے اسلام آباد کے ایک سٹرابری فارم پر کام کرنے کے لیے آئے۔
بابا فرید سٹرابری کی کاشت کے ایک ماہر کسان ہیں لیکن کسی کی زمین پر ایک مزدور کی حیثیت سے کام کر کے گزر اوقات کرنا کافی مشکل کام تھا۔ بابا فرید وقت کو دھکا دیتے رہے اور اپنے ساتھ چھ بچوں کو لگا کر ان کو بھی کام سکھایا اور پالا پوسا۔
سٹرابری کی کاشت کے ساتھ انہیں بچپن سے ہی مرغیوں کے ساتھ لگاؤ تھا۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ گھر میں ہر وقت کچھ مرغیاں پال کر رکھا کرتے تھے جس سے نہ صرف ان کا شوق پورا ہوتا تھا بلکہ اِکا دُکا انڈے بیچنے سے روزمرہ کے چائے پانی کا خرچہ نکل آتا تھا۔
مزید پڑھیں
-
برڈ فلو کا خدشہ،35 ہزار مرغیاں تلفNode ID: 457736
-
’کیا انڈیا میں برڈ فلو کے پھیلاؤ میں بھی پاکستان کا ہاتھ ہے؟‘Node ID: 531771
-
سعودی گریجویٹ خاتون نے مویشی پال لیےNode ID: 533636
وہ اپنی زندگی میں روانی سے عمر کی آخری منزل کی جانب بڑھ رہے تھے کہ دو سال پہلے وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب میں لوگوں میں مرغیاں اور انڈے تقسیم کرکے غربت ختم کرنے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا۔
ان کا یہ اعلان بہت سے لوگوں کے لیے مذاق بن گیا اور انہوں نے وزیراعظم پر خوب تنقید کی کہ وہ مرغیاں پال کر کیسے غربت کا خاتمہ کر سکتے ہیں؟
تاہم یہ بات بابا فرید کے لیے مشعلِ راہ بن گئی۔ انہوں نے گھر میں موجود مرغیوں کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم کے پروگرام کے تحت پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل سے جا کر مزید مرغیاں لے آئے۔ کچھ چوزے انہوں نے گلی گلی مرغیاں بیچنے والے پھیری والوں سے لیے اور کچھ ایک قریبی فارم سے۔
اپنی بساط کے مطابق انہوں نے نچلے درجے سے یہ کام شروع کیا اور اب ساٹھ مرغیوں کے ساتھ محدود سطح پر اچھا کاروبار کر رہے ہیں۔
بابا فرید کا کہنا ہے کہ ’رواں سال سردیوں میں انہوں نے صرف انڈوں کے ذریعے ماہانہ پچیس ہزار روپے تک بھی کمائے ہیں اور یہ کاروبار ان غریبوں کے لیے بہت مفید ہے جو کچھ اور نہیں کر سکتے، ان کے پاس روزگار ہے نہ اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ غریب کے لیے ایسے ہے کہ جیسے سونے کی کان ہو۔‘
’میں اس وقت سے مرغیاں پال رہا ہوں، جب ایک مرغی سوا روپے کی ملتی تھی۔ میں نے مرغیوں کی تعداد کم کرنے کے بجائے بڑھائی ہے۔‘

بابا فرید کہتے ہیں کہ ’مرغیوں کے کاروبار میں اخراجات انتہائی کم ہیں کیونکہ گھر میں پالی گئی ایک مرغی دن میں صرف 50 گرام باجرہ کھاتی ہے۔‘
’ان کے رکھنے کے لیے زیادہ بڑی جگہ بھی درکار نہیں ہوتی۔ میں نے چھوٹی سی جگہ پر تین تہیں بنا کر مرغیاں رکھی ہیں۔ ایک تہہ پر 12 مرغیاں سمٹ جاتی ہیں۔‘
اسلام آباد کے غوری ٹاؤن میں رہنے والے نوجوان مدثر جاوید بھی مرغیوں سے منافع کما رہے ہیں۔
انہوں نے اپنا کام 50 چوزوں سے شروع کیا تھا۔ اور اب وہ اس سے ہر ہفتے ہزاروں روپے کما رہے ہیں۔
’میں نے اس کاروبار میں پانچ ہزار روپے کی ابتدائی سرمایہ کاری کی تھی۔ اب میں ہر ہفتے پانچ ہزار کے انڈے بیچتا ہوں۔‘
مدثر کہتے ہیں کہ ’اس کام میں کوئی زیادہ محنت بھی نہیں ہے اور وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کے باوجود خود ہی اس کی ساری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔‘
’میں صبح دفتر جانے سے پہلے ان کو دانا ڈال جاتا ہوں اور پھر شام کو واپس آ کر ڈالتا ہوں۔ میں اس پارٹ ٹائم کام کے ذریعے گھر کا خرچ چلا رہا ہوں۔‘
