Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرضے موخر: معیشت اور عام آدمی کی زندگی پر اثرات کیا؟

آئی ایم ایف نے کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کے دوران پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نیا قرض جاری کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں جب بھی مہنگائی کی بات ہو تو اس کے دفاع میں بیرونی قرضوں کا ذکر ضرور سننے کو ملتا ہے اور اس پر حکومت اور حزب اختلاف پر تنازعات بھی رہتے ہیں کہ کس نے کتنا قرضہ لیا اور اس کا استعمال کیسے کیا۔
ان ہی قرضوں کو جواز بنا کر نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور بجٹ میں عوام کو کم ریلیف دینے میں ناکامی پر بھی قصور وار زیادہ تر یہ قرضے ہی ٹھرائے جاتے ہیں۔
ماضی میں پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں رعایت زیادہ تر فوجی دور حکومت میں ملی ہیں لیکن اب موجودہ سول حکومت میں پاکستان کو بڑا ریلیف ملنے جا رہا ہے کیونکہ کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد عالمی مالیاتی اداروں اور قرض دینے والے ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کو ایک سال کے لیے منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
 
مزید پڑھیں
اس ریلیف کو اگر سرکاری حساب کتاب میں دیکھیں تو شاید سمجھنا مشکل ہو گا لیکن عوام کے لیے اس میں صرف اتنی دلچسپی ہو گی کہ اس صورتحال سے ان کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ دہائیوں سے قرضوں کی واپسی کا سارا بوجھ ان ہی کے کندھوں پر ہے جس میں کبھی بجلی مہنگی تو کبھی گیس مہنگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پاکستان کی معیشت کتنی بہتر اور عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اشیائے خوردونوش کو قیمتوں میں کمی آئے گی یا نہیں اور روپے کی قدر میں کتنی بہتری کا امکان ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کا قرضہ ایک سال تک موخر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی رہیں تو ملک میں مہنگائی کی شرح صفر تک لائی جا سکتی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کو بھی تقویت ملنے کا امکان ہے۔ تاہم کچھ اس سے اختلاف کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معیشت پر اصل بوجھ اندرونی قرضوں کا ہے بیرونی قرضے عام آدمی کو فائدہ دینے کے اقدام کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔
حکومت اور قائد حزب اختلاف بیرونی قرضوں کے معاملے پر عوام کو الجھائے رکھتے ہی ہیں معاشی ماہرین کی آراء بھی اپنے اپنے نکتہ نظر کے مطابق ان قرضوں کے افادیت کم یا زیادہ بتاتے ہیں تاہم قرضے موخر ہونے کا کم از کم کوئی نقصان نہیں ہوگا اس پر سب متفق ہیں۔ جس سے یہ بات تو اخذ کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں جو چیز نقصان نہ دے اسے فائدہ مند ہی سمجھا جانا چاہیے۔
'اردو نیوز' سے گفتگو میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ'اس سال پاکستان کو بارہ ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے تھے۔ اس اقدام سے سب سے پہلے تو ان قرضوں کو واپس کرنے کی پریشانی کم از کم ایک سال کے لیے ختم ہوئی ہے بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ معیشت کو بارہ ارب ڈالر کی فنانسنگ مل گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا مزید قرضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پاکستان کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے عالمی مارکیٹ سے خریداری میں آسانی ہوگی۔'

وزیراعظم عمران خان نے عالمی اداروں سے ترقی پذیر ملکوں کے قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے کی اپیل کی تھی۔ فوٹو: اے پی پی

اب ظاہر ہے عام حالات میں آئی ایم ایف سے اتنا قرضہ لیا جاتا تو ان کی شرائط ہی اتنی کڑی ہوتی ہیں کہ ان کو پورا کرنے کے لیے عوام کا خون نچوڑنا ہی پڑتا ہے۔
ڈاکٹر سلمان شاہ بولے کہ 'اگر اس سال اس وبا پر قابو پالیا جاتا ہے تو پھر طے ہوگا کہ پاکستان یہ ادائیگیاں کیسے کرے گا۔ اگر سلسلہ طویل ہوتا ہے تو تب صورت حال دیکھ کر ہی لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔'
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'قرضے موخر ہونے سے پاکستانی روپے کو تقویت ملے گی۔ اس وقت اگرچہ دنیا بھر کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہو رہی ہے لیکن جب ریزرو میں ڈالر ہوں گے تو اس سے فرق ضرور پڑے گا۔'
ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق 'سٹیٹ بینک نے پاکستان میں مہنگائی کی شرح سات فیصد تک تجویز کی ہے۔ اگر تیل کی قیمتوں میں مزید کمی ہوتی ہے تو مہنگائی کی شرح صفر تک بھی آ سکتی ہے۔'
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی اور سب اچھا ہی لگ رہا تھا لیکن جب اردو نیوز نے موجودہ حکومت کے سابق مشیر ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے صورت حال کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔ کہتے ہیں کہ 'بجٹ 2019 20 میں قرضہ جات کی ادائیگی کے لئے کل رقم دو ہزار نو سو ارب روپے مختص کی گئی تھی جس میں سے 2500 ارب اندرونی قرضہ جات جبکہ 350 ارب بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھی گئی تھی۔ پس ثابت ہو کہ ہمارے اوپر 88 فیصد بوجھ تو اندرونی قرضوں کا ہے۔ بیرونی قرضوں کا تو صرف نعرہ لگایا جا رہا ہے۔'
البتہ انھوں نے یہ ضرور تسلیم کیا کہ بیرونی قرضوں کے حوالے سے تو ہمیں صرف اتنی چھوٹ ملی ہے کہ سود اس سال نہیں بلکہ اگلے سال ادا کرنا ہے۔ اس سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عام آدمی کو اگر کوئی فائدہ پہنچے گا تو وہ شرح سود میں دو فیصد کمی سے ہوگا۔ اس سے حکومت کو پانچ سو ارب روپے بچ جائیں گے اور اضافی وسائل پیدا ہوں گے۔ ان کو کرونا کے حوالے سے استعمال کیا جاسکے گا۔ یہ اچھا قدم ہے اور شرح سود میں مزید کمی کی جانی چاہیے۔ بیرونی قرضہ جات کا نعرہ زیادہ ہے لیکن اس کا حقیقی اثر اتنا زیادہ نہیں۔'

شیئر: