سنکیانگ میں جبری مشقت پر’تشویش‘ کے بعد چینی صارفین نائیکی پر برہم
سنکیانگ میں جبری مشقت پر’تشویش‘ کے بعد چینی صارفین نائیکی پر برہم
جمعرات 25 مارچ 2021 15:02
نائیکی کے بیان سے متعلق موضوع جمعرات کو چین کے ٹوئٹر ویبو پر سب سے زیادہ سامنے آرہا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کپڑے اور جوتے بنانے والی کپمنی نائیکی نے چین میں سنکیانگ کے علاقے میں جبری مشقت کی رپورٹس پر ’تشویش‘ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ وہاں کی کپاس استعمال نہیں کرتی۔
چینی سوشل میڈیا صارفین نائیکی کے بیان پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بیان جمعرات کو چین کی ٹوئٹر سوشل میڈیا سائٹ ویبو پر سب سے زیادہ بحث کا موضوع رہا اور اس پر کافی تنقید ہوئی۔
اس تنازعے پر چین کے مشہور اداکار وینگ ایبو نے نائیکی کے نمائندے کے طور پر اپنے کام کا کانٹریکٹ ختم کر دیا۔
ان کی ایجنسی نے ویبو پر ایک بیان میں جمعرات کو کہا کہ ’انہوں نے سوشل میڈیا پر نائیکی کے سنکیانگ سے متعلق بیان پر ہونے والی تنقید کے پیش نظر اپنا کانٹریکٹ ختم کر دیا ہے۔‘
تاہم یہ بات واضح نہیں کہ نائیکی نے یہ بیان کب دیا تھا کیونکہ اس پر کوئی تاریخ نہیں لکھی ہوئی اور نائیکی سے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
اپنے بیان میں نائیکی نے کہا تھا کہ ’ہمیں سنکیانگ اور اس سے متعلق جبری مشقت کی رپورٹس پر تشویش ہے‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’نائیکی اس علاقے سے مصنوعات نہیں منگواتا اور ہم نے اپنے کانٹریکٹ سپلائرز سے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ وہ وہاں کا کپڑا یا سوت استعمال نہیں کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب چین نے مغربی برانڈز کے بیانات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ نائیکی اور ایچ اینڈ ایم کا بائیکاٹ بھی کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کو چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’چینی عوام کچھ غیرملکیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ چین کے چاول کھائیں اور اس کے برتن توڑیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہاں چین کی مارکیٹ ہے اور ہم کھلے دل کے ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کا استقبال کرتے ہیں۔ لیکن ہم چین پر زہریلے حملوں جو افواہوں اور جھوٹ پر مبنی ہیں اور چین کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں کہ خلاف ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ پیر کو یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر چینی افسران پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس کے جواب میں چین نے یورپی ارکان پارلیمنٹ اور اداروں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔