Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کی ’جارحانہ سیاست‘ کب کب جاری رہی؟

مریم نواز سیاست میں اس وقت باضابطہ طور پر سامنے آئیں جب لاہور کی نشست پر بیگم کلثوم نواز نے الیکشن لڑا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کی نائب صدر مریم نواز پچھلے کچھ عرصے سے قدرے خاموش ہیں جبکہ ان کے مخالفین ان کی اس خاموشی کو پارٹی کے صدر شہباز شریف کی رہائی سے منسوب کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر شہباز گل نے تو شہباز شریف کی رہائی کے عدالتی فیصلے سے پہلے ہی کچھ اس طرح کا ٹویٹ کر دیا تھا جس میں انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ ’کچھ لوگوں کے ٹویٹ خاموش ہونے والے ہیں۔‘
ایسے میں سیاسی حلقوں میں واقعی ان سوالوں نے جنم لینا شروع کردیا ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں مریم نواز نے جس طرح جارحانہ سیاست کی ہے اس وقت شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں جیل میں تھے اب دونوں باپ بیٹا باہر آرہے ہیں اور ان کو جارحانہ سیاست سے موسوم بھی نہیں کیا جاتا تو ایسے میں مریم نواز کی سیاست کیا ہو گی؟
مریم نواز کی جارحانہ سیاست :
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز پاکستانی سیاست میں اس وقت باضابطہ طور پر سامنے آئیں جب 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نواز شریف کی وزارت عظمی ختم کی تو لاہور سے خالی ہونے والی نشست پر بیگم کلثوم نواز نے الیکشن لڑا۔ 
حلقہ این اے 120 کے اس ضمنی الیکشن کی کیمپین مریم نواز نے کی اور اس کیمپین میں ان کا موڈ خاصہ جارحانہ رہا۔ وکٹری سپیچ میں بھی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کی۔ 
ایسا نہیں ہے کہ مریم نواز مسلسل جارحانہ سیاست لے کر ہی چل رہی ہیں ایسے بہت سے مواقع بھی ہیں جب وہ سرے سے خاموش ہوجاتی ہیں۔
2018 کے انتخابات سے پہلے جب ان کواور ان کے والد نواز شریف کو ایک ساتھ سزا سنا دی گئی تو وہ جیل چلی گئیں اور ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ خاموش ہو گیا۔
جب وہ جیل میں تھیں تو اس وقت شہباز شریف اپوزیشن لیڈر بن چکے تھے اور حمزہ شہباز پنجاب کے اپوزیشن لیڈر۔

مخالفین مریم کی خاموشی کو پارٹی کے صدر شہباز شریف کی رہائی سے منسوب کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ستمبر 2018 میں جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کی تو شہباز شریف اڈیالہ جیل سے نواز شریف ، مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو لینے خود گئے۔ تو اس کے بعد کئی مہینے ان کی جانب سے کوئی سیاسی سرگرمی سامنے آئی۔ 
پھرایک دوسرے مقدمے میں دسمبر 2018 میں ہی احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال قید کی سنا دی تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ 
مریم نواز کی رہائی کے ایک مہینے بعد یعنی اکتوبر 2018 میں نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے فروری 2019 میں انہیں ضمانت پر رہا کیا۔
اس دوران مریم نواز ایک مرتبہ پھر اپنی خاموشی توڑ چکی تھیں۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے سیاسی جلسے شروع کردیے۔ تاہم اگست 2018 میں نیب نے انہیں چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار کر لیا۔
نواز شریف کو بھی نیب اسی کیس میں کوٹ لکھپت جیل سے پہلے ہی گرفتار کر چکی تھی۔ 
نومبر 2019 میں نواز شریف کی نیب کسٹڈی کے دوران طبیعت ناساز ہونے پر لاہور ہائی کورٹ نے ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا اور ساتھ ہی مریم نواز کو بھی رہائی مل گئی۔ 
جیل سے رہائی کے بعد وہ کچھ عرصہ پھر خاموش رہیں۔ البتہ 2020 کے وسط میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی خاموشی توڑی اور اپنی جارحانہ سیاست کو وہیں سے شروع کیا جہاں رکی تھی۔
کیونکہ ستمبر 2020 میں  اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے جنم لیا تو اس وقت مریم خاصی متحرک تھیں اور اس اتحاد کے اجلاسوں میں انہوں نے نواز شریف کی نمائندگی کی۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے جیل سے باہر آنے کے بعد مریم نواز قدرے خاموش دکھائی دیتی ہیں (فوٹو: اے اپف پی)

اسی دوران شہباز شریف ایک مرتبہ پھر جیل چلے گئے اور مسلم لیگ ن کی قیادت عملی طور پر مریم نواز کے ہاتھ میں رہی۔ اب پی ڈی  ایم بھی تقریبا ختم ہو چکی ہے اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی جیل سے باہر آچکے ہیں تو مریم نواز بھی قدرے خاموش دکھائی دیتی ہیں۔ 
پاکستان کے معروف تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ مریم کی خاموشی کسی حکمت عملی کےتحت ہے ’کیونکہ اس بات کا دارومدار شہباز شریف کی رہائی کے بعد کی سیاست پر ہےاور مریم نواز کی ابھی تک اپنی کوئی سیاست نہیں وہ اصل میں نواز شریف کی نمائندہ ہیں۔‘
مظہر عباس کے بقول نواز شریف جو کہتے ہیں وہ اسی پر عمل کرتی ہیں۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے کہ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے گزشتہ برس مریم نے کھل کر کھیلا۔ ’وہ صرف اس لیے کہ نواز شریف ابھی اپنی سیاست کر رہے ہیں جب ان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے آگے کر دیتے ہیں۔ اگر واقعی مریم خاموش رہتی ہیں تو پھر اگلے چند ہفتے پاکستان کی سیاست میں بہت اہم ہیں۔‘

شیئر: