بدھ کو لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس پر کیس کی سماعت کی۔
نیب پراسیکیوٹر فیصل بخاری نے دلائل میں کہا کہ ’شہباز شریف کے صاحبزادوں حمزہ اور سلمان کو جو ٹی ٹیز آتی تھیں وہ یہ اپنی والدہ کو دیتے تھے۔ ٹی ٹیز کے علاوہ ان کی والدہ کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف خاندان کا ایک طریقہ کار تھا یہ جس دوران پبلک آفس میں ہوتے تب ٹی ٹیز نہیں آتی تھی، مثال کے طور شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں پبلک آفس کے دوران کوئی ٹی ٹیز نہیں آئی۔‘
نیب وکیل نے یہ بھی کہا کہ شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کے 299 ملین روپے کے اثاثہ جات ہیں، ’ان کے اکاؤنٹ میں 26 ٹی ٹی بھجوائی گئیں، ان ٹی ٹیز کی کل مالیت 137 ملین روپے ہے۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’ماڈل ٹاؤن میں 96 ایچ گھر اور 87 ایچ گھر ٹی ٹی رقم سے خریدی۔ ان کو وزیراعلیٰ کا کیمپ آفس بنا کر ساڑھے پانچ کروڑ روپے تزین و آرائش پر لگائے گئے۔‘
شہباز شریف کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ان تمام دلائل کا اس سے تعلق نہیں ہے۔
نیب پراسکیوٹر نے عدالت کو کہا کہ نصرت شہباز نے ٹی ٹیز سے کمپنی بنائی جس کی ڈائریکٹر بنیں۔
عدالت نے نیب پراسکیوٹر سے کہا کہ یہ تو آپ بے نامی دار کا بتا رہے ہیں شہباز شریف کا بتائیں جس پر انہوں نے کہا کہ سلمان شہباز نے 2003 میں اپنے 19 لاکھ کے شئیر ڈیکلیر کیے۔ جو بھی اثاثے بنے 2005 کے بعد بنے جب ٹی ٹیز آنا شروع ہوئیں۔
نیب پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پاپڑ والے کے اکاؤنٹ میں 14 لاکھ ڈالر بھیجے گئے، اسی طرح اسی طرح محبوب علی نامی شخص کو دس لاکھ ڈالر آئے جس کا پاسپورٹ ہی نہیں بنا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی بیٹی رابعہ عمران کے اکاؤنٹ میں دس ٹی ٹیز بھیجی گئیں۔ شہباز شریف کے شریک ملزم طاہر نقوی اشتہاری ہیں، طاہر نقوی ٹی ٹیز کی ساری رقم سلمان شہباز کو دیتا تھا شہباز شریف کے پورے خاندان نے ٹی ٹیز وصولی کیں۔
نیب پراسکیوٹر کے مطابق ’وزیراعلی سیکریٹریٹ کے ملازمین کے اکاؤنٹ میں پیسے آتے رہے جنہیں ہارون یوسف آپریٹ کر رہا تھا، ان سب کا تعلق کہیں نہ کہیں شہباز شریف سے تھا۔‘
کیس کی سماعت کے دوران لیگی رہنما مریم اورنگزیب بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
گزشتہ روز شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے دلائل مکمل کر لیے تھے۔
شہباز شریف پر مقدمات:
قومی احتساب بیورو اب تک اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پر تین مقدمات بنا چکا ہے۔
ان کو سب سے پہلے پانچ اکتوبر 2018 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ صاف پانی کمپنی کیس میں انکوائری کے لیے لاہور نیب کے دفتر میں پیش ہوئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ان کی گاڑی اور سٹاف کو واپس بھیج دیا گیا اور نیب کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ان کو ایک دوسرے کیس آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس کیس میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ پراجیکٹ کا کنٹریکٹ ایک کمپنی سے ختم کیا جس نے قانونی طور پر وہ حاصل کیا تھا اور ایک دوسری کمپنی کو دیا جس کا وہ اختیار نہیں رکھتے تھے۔
اس عمل سے قومی خزانے کو 193 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ اسی حراست کے دوران ان پر ایک اور مقدمہ بنایا گیا جو کہ چوہدری شوگر ملز سے متعلق تھا۔
ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے خاندانی مل کے لیے قومی خزانے سے چنیوٹ میں ایک نالہ بنایا جو کہ غیر قانونی تھا۔ تاہم شہباز شریف نے ان تمام الزامات سے انکار کیا۔
14 فروری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے ان دونوں مقدمات میں ان کی ضمانت منظور کر لی۔ وہ اسی روز تک نیب کی حراست اور تین مہینے تک جیل میں رہے۔
28 ستمبر 2020 کو نیب نے انہیں ایک مرتبہ پھر اس وقت گرفتار کر لیا جب لاہور ہائی کورٹ نے ایک اور مقدمے میں ان کی ضمانت مسترد کر تھی۔
نیب نے ان کے خلاف ایک مقدمہ بنایا جس میں ان پر منی لانڈرنگ کا سنگین الزام عائد کیا گیا۔ صرف یہی نہیں اس مقدمے میں ان کے دونوں بیٹوں، بیٹیوں، اہلیہ اور داماد کو بھی نامزد کیا گیا۔
شہباز شریف نے اس مقدمے میں عبوری ضمانت کروا رکھی تھی جسے بعد ازاں خارج کر دیا گیا اور وہ گرفتار ہو گئے۔ اب بدھ 14 اپریل کو ان کی ضمانت اس مقدمے میں بھی لاہور ہائیکورٹ نے منظور کر لی ہے۔