Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف کی ضمانت: ریفری جج کون ہوتا ہے اور کیا کام کرتا ہے؟

’ہائی کورٹ رولز میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کیس کو ریفری جج کے پاس بھجوایا جا سکے۔‘
لاہور ہائی کورٹ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت ہونے کے باوجود ابھی رہائی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ کیوں کہ کیس سننے والے دو ججوں کے مابین ضمانت دینے پر اختلاف سامنے آگیا ہے  اور اب معاملہ ریفری جج کے پاس بھیجا جائے گا۔
ہائی کورٹ میں ریفری جج کون ہوتا تھا اور وہ کیسے کام کرتا ہے، اس حوالے سے جب اردو نیوز نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس ریٹائرڈ علی اکبر قریشی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا ’ہائی کورٹ رولز جو کہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہیں، ان میں پوری فصاحت کے ساتھ ایک ایک چیز درج کی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ریفری جج کے حوالے سے ہائی کورٹ رولز یہ کہتے ہیں کہ اگر دو رکنی بینچ متفقہ طور پر ایک نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اپنا الگ الگ فیصلہ لکھ کر چیف جسٹس کو بھیج دیا جاتا ہے اور چیف جسٹس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی تیسرے جج کو اس کیس کا ریفری جج مقرر کر دیں۔‘ 
جسٹس ریٹائرڈ علی اکبر قریشی کے بقول ’ریفری جج کیس کو از سر نو نہیں سن سکتا ہے، تاہم پہلے لکھے ہوئے دونوں ججوں کے فیصلے اور کیس فائل کو پڑھنے کے بعد کسی ایک جج کی رائے سے اتفاق کرتا ہے۔ یوں اکثریتی رائے والا فیصلہ نافذ العمل ہوجاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر ایسی صورت حال ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچوں میں سامنے آتی ہے کیونکہ ڈویژن بینچ میں دو جج ہی ہوتے ہیں۔ اس سے بڑے بینچوں کو فل بینچ کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں ججز کی تعداد طاق ہوتی ہے تو کسی بھی کیس کا فیصلہ ٹائی ہونے کا احتمال نہیں ہوتا۔‘ 
پاکستان کی حالیہ عدالتی تاریخ میں چند ایک بار ایسی صورت حال پیدا ہوئی جب کیس ریفری جج کو بھیجا گیا۔

’عام طور پر ریفری جج کی ضرورت ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچوں میں سامنے آتی ہے کیونکہ اس میں دو جج ہی ہوتے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی ماڈل ایان علی جو کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں گرفتار ہوئی تھیں، ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے جنوری 2017 میں کیس سندھ ہائی کورٹ میں لگا۔
ڈویژن بینچ ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ نہ کر سکا۔ کیس کو سننے والے دو ججز جسٹس احمد علی ایم شیخ اور جسٹس کے کے آغا نے معاملہ ریفری جج کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو بھیج دیا۔ اس کے بعد جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کو اس کیس کا ریفری جج مقرر کیا گیا۔  

ریفری جج دونوں ججز کے فیصلوں کو پڑھ کر کسی ایک سے اتفاق کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح لاہورہائی کورٹ میں اپریل 2013 میں شریف فیملی کے ایک مقدمے جو کہ اتفاق فاؤنڈری اور حدیبیہ پیپرملز کی نیب سے جانچ سے متعلق تھا۔ اس کو سننے والے دونوں ججز جسٹس خواجہ امتیاز احمد اور جسٹس فرخ عرفان خان نے اپنا الگ الگ فیصلہ لکھا جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کا ریفری جج جسٹس شیخ نجم الحسن کو مقرر کیا۔  

شہباز شریف کی رہائی کا معاملہ اب ریفری جج کے پاس جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)

تو کیا ہائی کورٹس میں عمومی طورپر بڑے مقدمات میں ہی ریفری جج کی نوبت آتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس ر علی اکبر قریشی نے بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے عام نوعیت کے مقدمات میں بھی بعض اوقات ججز کی رائے متصادم ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ سال 2002 میں جب جسٹس جواد ایس خواجہ لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے تو ان کے سامنے ایک مالیاتی فراڈ کا کیس تھا۔ اس بینچ میں جسٹس ملک قیوم دوسرے جج تھے، دونوں کا فیصلے پر اتفاق نہیں ہو سکا یوں معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا اور جسٹس جمشید علی شاہ کو ریفری جج مقرر کیا گیا جنہوں نے بعدازاں فیصلہ دیا۔‘ 

شیئر: