پاکستان میں تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس اہلکاروں پر تشدد اور پنجاب پولیس کی جانب سے آپریشن کے بعد راستے کھلوانے کی وجہ سے عوام میں پولیس کے لیے ہمدردی پائی جا رہی تھی۔
سوشل میڈیا پر پولیس کے کردار کو سراہا گیا اور زخمی اور ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی ستائش کی جا رہی تھی۔
اس دوران سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی جانب سے گرفتار کارکنوں پر ’چھترول‘ کی کچھ ویڈیوز وائرل ہوگئیں جس پر اب پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی نے ان ویڈیوز کا نوٹس لے کر متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
صلاح الدین قتل کیس میں کیا جواب صرف پوسٹ مارٹم رپورٹ؟Node ID: 432256
-
پنجاب پولیس کی ویڈیو بنانے پر پابندیNode ID: 432796
-
تحریک لبیک پر پابندی ملکی سیاست پر کس طرح اثرانداز ہوگی؟Node ID: 557706
ترجمان پنجاب پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پنجاب پولیس ایک منظم فورس ہے۔ اس طرح کا عمل کسی بھی پولیس اہلکار کی جانب سے آپریشن کے دوران بھی قابل قبول نہیں ہے۔‘
’آئی جی پنجاب نے ذاتی طور پر اس کی مذمت کی ہے اور کہا کہ اس کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پولیس کو شرپسند عناصر کی سطح پر نیچے نہیں آنا چاہیے۔ گرفتار مظاہرین پر تشدد کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘
پنجاب پولیس کی جانب سے اس وضاحت کے باوجود ایک تاثر عام ہے کہ تھانوں میں تشدد کا کلچر کیوں ختم نہیں ہو رہا؟
اس حوالے سے سابق ایڈیشنل آئی جی طاہر پاشا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ملزمان کی گرفتاری کے بعد ان پر تشدد کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔‘ ’پولیس اہلکاروں کی جانب سے تشدد کی جو ویڈیوز سامنے آئیں اس سے لگ رہا ہے کہ ایسا وہ ردعمل میں کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے پولیس کا نام خراب ہوگا اور عوام اس عمل کو زیادہ پسند نہیں کریں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اگر تحریک لبیک پر پابندی نہ لگتی اور ان پر دہشت گردی کی دفعات عائد نہ ہوتیں تو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہونے کے باوجود گرفتار ملزمان اگلے ہی دن ضمانت کرا کر گھر چلے جاتے۔‘

’اس کے لیے ضروری ہے کہ پورے ضابطہ فوجداری کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔ قانون سب کے لیے برابر صرف کہنے کی حد تک نہ ہو بلکہ اس پر عمل ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔‘
طاہر پاشا نے کہا کہ ’جب عدالتی نظام بہتر ہوگا تو پولیس اور تفتیش کا نظام بھی بہتر کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر تھانوں میں تشدد کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔‘
قانونی ماہرین کے مطابق تھانوں میں پولیس کی جانب سے تشدد کسی صورت حال میں بھی قابل برداشت اس لیے نہیں ہے کہ آئین میں انسانی شخصیت کی عظمت و احترام کو یقینی بنایا گیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت کسی بھی شخص پر تشدد ہتک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسداد تشدد کنونشن کی توثیق بھی کر رکھی ہے۔
اس کی روشنی میں پاکستان نے قانون سازی کا وعدہ بھی کیا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان میں پولیس حراست میں تشدد کے حوالے سے الگ سے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے

فوجداری مقدمات کے قانونی ماہر اسد جمال ایڈووکیٹ کے مطابق ’آئین میں اگرچہ کسی بھی جرم کے لیے شہادت حاصل کرنے اور یا اقرار جرم کروانے کے لیے کسی بھی قسم کے تشدد پر پابندی ہے تاہم قانون میں تشدد کی کوئی تعریف ہی نہیں کی گئی۔‘
’ضابطہ فوجداری میں جس تشدد کی تعریف موجود ہے پولیس کا تشدد اس سے ہٹ کر ہوتا ہے جس کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا۔ اس کے لیے پولیس کے اندر خاص قسم کا احتساب ضروری ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں تھانوں میں پولیس تشدد روکنے کے لیے کوئی بھی اچھا قانون موجود نہیں ہے۔‘
’پولیس آرڈر میں اگرچہ پولیس اہلکاروں کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں لیکن اقوام متحدہ کے انسداد تشدد کنونشن کی روشنی میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے مجوزہ قانون وزارت انسانی حقوق میں موجود ہے لیکن پیش نہیں کیا جا رہا۔
ماہر قانون اکرام چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’قانون پولیس کو ملزم پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو ضابطہ فوجداری، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور تحویل کے حوالے سے قوانین موجود ہیں ان کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے، تاہم پولیس کی جانب سے اختیارات سے تجاوز عموماً ہو جاتا ہے۔
