Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک لبیک پر پابندی ملکی سیاست پر کس طرح اثرانداز ہوگی؟

سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ٹی ایل پی بڑی سیاست جماعت بن کر ابھری تھی۔ فوٹو اے ایف پی
وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب پولیٹکیل آرڈر ایکٹ کے تحت بھی پابندی لگانے کے لیے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ 
یہ فیصلہ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد لیا گیا۔ 
تحریک لبیک پاکستان کا ملکی سیاست میں کوئی طویل سفر تو نہیں لیکن 4 سالوں کے اس سفر کے دوران ٹی ایل پی ایک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی اور سنہ 2018 کے عام انتخابات میں 20 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے ملک کی پانچویں بڑی سیاست جماعت اور سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت بن کر ضرور ابھری ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کو پزیرائی ملنے کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ کا متنازع قانون منظور کروانا بنا اور یہی وجہ رہی کہ ماضی میں پنجاب میں بالخصوص مذہبی رجحان رکھنے والے ووٹر نے مسلم لیگ ن کے بجائے تحریک لبیک پاکستان کو ووٹ دینے پر ترجیح دی۔ 
2018  کے عام انتخابات میں تحریک لبیک کے امیدواروں نے دیگر جماعتوں خصوصی مسلم لیگ ن کا نہ صرف ووٹ بینک توڑا بلکہ درجنوں نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی شکست کا مارجن ٹی ایل پی کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں سے کم تھا۔ 
تحریک لبیک پاکستان کی سیاسی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے سنہ 2018 کے چند حلقوں کی انتخابات پر نظر دوڑائیں تو بڑے بڑے سیاسی برج قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ 
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ، سابق وزیر مملکت طلال چوہدی، عابد شیر علی سمیت متعدد لیگی رہنما سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں ناکام رہے اور ان کی شکست کا مارجن چند ہزار ووٹ تھے جبکہ ٹی ایل پی کے امیدواروں کے ووٹ شکست کے مارجن سے زیادہ تھے۔

عام انتخابات میں ٹی ایل پی نے ن لیگ کے کئی امیدواروں کو شکست دی۔ فوٹو اے ایف پی

حتی کے وزیراعظم عمران خان لاہور کے حلقہ این اے 131 میں سعد رفیق کے مقابلہ اپنی نشست چند سو ووٹوں سے جیتنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اس حلقے میں تحریک لبیک کے امیدوار کو 9 ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے۔ 
سیاسی مبصرین کے مطابق مسلم لیگ ن کو گزشتہ انتخابات میں 15 سے 20 نشستیں سے تحریک لبیک پاکستان کی وجہ سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ 
تحریک لبیک پر پابندی سیاسی طور پر کسے فائدہ ہوگا؟
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے خیال میں تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کے سیاسی تنائج ایسے ہی ہوں گے جو کہ گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے خلاف دیکھنے کو ملا۔ 
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’فی الحال تو فوری طور پر لبیک کا ووٹر تحریک انصاف کا شدید مخالف ہوگا جبکہ پہلے یہ ووٹر اینٹی پی ٹی آئی نہیں بلکہ اینٹی مسلم لیگ ن تھا، اس لیے فوری طور پر اس کا سیاسی نقصان تو حکومت کو ہی ہوگا۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر سیاسی جماعتوں پر جب پابندی لگتی ہے تو کسی نئے نام کے ساتھ پارٹی رجسٹر کرالیتے ہیں۔ ’یہ دیکھنا ہوگا کہ تحریک لبیک کی قیادت نئے نام کے ساتھ خود کو رجسٹر کرواتے ہیں یا کسی اور جماعت میں ضم ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر نئے نام سے پارٹی رجسٹر کرواتے ہیں تو ووٹ بینک تو اپنی جگہ رہے گا لیکن وہ ووٹ بینک اینٹی پی ٹی آئی کے طور پر استعمال ہوگا۔‘ 

حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد تحریک لبیک کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

سہیل وڑائچ کے خیال میں ’تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے اور جس طرح ماضی میں حافظ سعید وغیرہ نے مختلف جماعتیں بنائی اور لوگ کام کرتے رہے یہ بھی وہی طریقہ اپنائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت تحریک لبیک کے ووٹرز کے ساتھ بظاہری کوئی جماعت ہمدردی نہیں کرے گی لیکن حکومت کے اس اقدام اب تحریک لبیک کی لڑائی اب مسلم لیگ ن سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی سے ہوگی۔ 
تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی سیاسی جماعتوں میں ووٹ کے اعتبار سے تحریک لبیک پاکستان سب سے بڑی جماعت ہے اور اس پر پابندی لگنے سے یقینی طور پر ملکی سیاست پر اثر تو پڑے گا۔ 
مجیب الرحمن شامی کے خیال میں حکومت کے لیے ایک چیلنج یہ بھی ہوگا کہ تحریک لبیک پاکستان کو دہشت گرد تنظیم ثابت کریں، ’یہ معاملہ تو اب عدالت میں جائے گا اور حکومت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے، یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت اب یہ عدالت میں ثابت کرپاتی ہے یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک انفرادی طور پر کوئی بڑی سیاسی طاقت تو نہیں تھی لیکن انتخابی نتائج پر کافی حد تک اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ ’اسمبلیوں میں تو ان کی کوئی خاصی تعداد نہیں ہے لیکن وہ کسی بھی انتخاب میں حمایت یا مخالفت کر کے انتخابی نتائج متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور گزشتہ انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو متاثر کیا ہے۔‘ 

سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

مجیب الرحمن شامی کے خیال میں ’تحریک لبیک کے ووٹر ماضی میں مسلم لیگ ن کے ووٹرز رہے ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ تحریک لبیک کا ووٹ بینک تحریک انصاف کی مخالفت میں استعمال ہوتا ہے یا کسی کے حق میں استعمال ہوگا۔ ان کا ووٹر تحریک انصاف کو ووٹر تو رہا نہیں البتہ چند حلقوں میں مسلم لیگ ن کی مخالفت کے باعث تحریک انصاف کو فائدہ ضرور ہوا ہے۔ 

شیئر: