سعودی عرب میں دریافت ہونی والی پتھر کی تعمیرات جنہیں ’مستطیل‘ کہا جاتا ہے ان کے بارے میں ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ قدیم ہیں جتنا کہ پہلے مانا جاتا رہا ہے۔
تعمیرات پر تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ’ یہ مصر کے اہرام سے بھی پہلے کی ہیں’۔
سعودی عرب کے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’پتھر کے زمانے کے آخری دور میں ہوئی یہ دیوقامت تعمیرات سات ہزار سال سے زیادہ پرانی ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
آثار قدیمہ کے سائنسی مطالعاتی منصوبے کی منظوریNode ID: 536611
-
آثار قدیمہ کوخراب کرنے والوں کے خلاف سخت قانون سازیNode ID: 553831
عرب نیوز کے مطابق’ آثار قدیمہ کی اس دریافت سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ مستطیلیں دنیا کے قدیم ترین آثار میں شامل ہیں‘۔
تاریخ اور آثار قدیمہ کے اعتبار سے تحقیق و تعلیم کے میدان میں کام کرنے والوں کےلیے جزیرہ العرب کی اہمیت میں کبھی اختلاف رائے نہیں پایا گیا۔ ہرمکتبہ فکر خطہ عربیہ کی تاریخی اہمیت سے متفق رہا ہے۔
جزیرۃ العرب کا جغرافیائی محل وقوع دو براعظموں ’مشرق وسطی اور افریقہ ‘کے درمیان جہاں عصر قدیم کی دوعظیم سلطنتوں کی حکومت رہی تھی۔ ان کی تاریخْی اہمیت کے لحاظ سے انہیں نظرانداز کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن امر ہے۔
تاہم یہاں مسئلہ اس امر کو ثابت کرنا تھا کہ اس خطے میں جگہ جگہ تاریخ بکھری پڑی ہے۔
خطے کا سب سے بڑا علاقہ جو سعودی عرب کے پاس ہے اور وہ اس علاقے کی نمائندگی کرتا ہے وہاں وہ تحقیقی کوششیں نہیں ہوئی جو اس کا حق تھا، تاہم ماضی قریب میں اس جانب توجہ دی گئی اور خطے کے تاریخی مقامات کو کھوجا گیا ہے۔
آخری تین دہائیوں میں جزیرہ العربیہ کے شمال مغربی علاقوں کے حوالےسے آثار قدیمہ کے مناظر اور ان کے بارے میں تصورات و خیالات میں ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوئی۔
ماضی میں جو اس خطے کے بارے میں خیال تھا کہ یہ علاقہ اور خطہ لوہے کے زمانے سے(آئرن ایج) دور رہا ہوگا یعنی یہ تصورکیاجاتا تھا کہ اس علاقہ میں پتھروں کے دور کے بعد آئرن ایج ( 12 ویں صدی سے لیکر15 ویں صدی قبل ازمیلاد) کی تہذیب نہیں آئی اور اس کے اثرات اس خطے پر نہیں پڑے وہ تمام تصورات و خیالات ماضی کا حصہ بن گئے۔
تاہم حالیہ برسوں میں گمشدہ تاریخ کو دریافت کرنے کے حوالے سے کافی کوششیں کی گئیں، اس بارے میں یونیورسٹی آف کیمبرج کی جانب سے شائع کردہ فیلڈ تحقیقی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ’مملکت کے شمال مغربی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں پتھریلے ڈھانچوں کا انکشاف ہوا ہے جن کا دور قبل از تاریخ کا ہوسکتا ہے‘۔
رائل کمیشن فار العلا (آر سی یو) نے اس دریافت کو 'مستطیل' کا نام دیا ہے۔ اگرچہ ان مستطیلوں کے وجود کے بارے میں سب کو پہلے سے علم ہے تاہم نئی تحقیق کے دوران ان کی پہلے سے دگنی تعداد میں دریافت ہوئی ہے۔ یہ تقریباً ایک ہزار کے قریب ہیں۔
ہر مستطیل کے آخر میں ایک دیوار ہے جو دیگر طویل دیواروں سے جڑی ہوئی ہے۔ اس سے ان دیوقامت مستطیلوں کے صحنوں کے سلسلے وجود میں آ جاتے ہیں جن کی لمبائی 20 میٹر سے لے چھ سو میٹر تک ہے۔
ہر مستطیل کے مرکزی داخلی راستے کے باہراس کی بنیاد میں گول یا نیم گول سیل بنائے گئے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان مستطیلوں نے تقریباً دو لاکھ مربع کلومیٹر کا علاقہ گھیر رکھا ہے۔ یہ مستطیلیں ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ایک ہی زمانے سے ہے۔
8/ Most mustatils only have two or three long walls, which creates one or two courtyards. Although, some have up to four courtyards. Here is a mustatil with three. pic.twitter.com/I58ZoNAQIZ
— AAKSA (@aaksa_project) April 30, 2021
اس دریافت پر ہونے والی تحقیق یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اس پراجیکٹ کا حصہ ہے جو وہ العلا اور خیبر کے صوبوں میں کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ آر سی یو کے آثار قدیم پروگرام میں شامل ہے۔
پرتھ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ماہر آثار قدیمہ اور تحقیق کی شریک مصنفہ میلیسا کینیڈی نے این بی سی ٹیلی ویژن کو بتایا ہے کہ 'ہم انہیں یاد گاری لینڈ سکیپ خیال کرتے ہیں۔