الیکٹرانک ووٹنگ: حکومت کو قانون سازی کے لیے اپوزیشن کی ضرورت؟
الیکٹرانک ووٹنگ: حکومت کو قانون سازی کے لیے اپوزیشن کی ضرورت؟
جمعرات 6 مئی 2021 5:46
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان میں انتخابات کے نتائج کو عام طور پر تمام جماعتوں کی جانب سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں وفاقی کابینہ نے انتخابی اصلاحات کے لیے آرڈیننس جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت انتخابات روایتی بیلٹ پپیپرز کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے ذریعے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے کے لیے راہ ہموار کی جائے گی۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے اس آرڈیننس کی منظوری ایک ایسے وقت میں دی گئی جب وزیراعظم عمران خان اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بات چیت کی دعوت دے چکے ہیں۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کی اس دعوت پر کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ حزب اختلاف کی جماعتیں ای وی ایم کے نظام کو مسترد کر چکی ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کے مطابق آرڈیننس کے بعد الیکشن کمیشن ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کروانے کے حوالے سے اقدامات کرے گا۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نظام کے لیے اپوزیشن کا کردار کتنا اہم؟
ماہر قانون دان اور سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق حکومت الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نظام متعارف کروا سکتی ہے اور اس کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے سادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس عددی اکثریت موجود ہے لیکن سینیٹ میں سادہ اکثریت موجود نہیں اس لیے آرڈیننس کے ذریعے اسے متعارف کروایا جا رہا ہے تاکہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے اپنی تیاری مکمل کرے اور انتخابات آنے پر تیاری مکمل نہ ہونے کا مسئلہ درپیش نہ آئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 120 روز کے بعد حکومت ایک بار اس میں 120 روز کی توسیع کر سکتی ہے۔ ’جب یہ آرڈیننس نافذ ہو جائے گا تو انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تحت ہی کیے جائیں گے۔‘
سابق وزیر قانون کے مطابق ’الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور یہ ان کی ہی ذمہ داری ہے کہ صاف اور شفاف انتخابات کروائے اس لیے یہ ذمہ داری وزیراعظم کی نہیں بلکہ آئینی طور پر الیکشن کمیشن کی ہے اور انہوں نے ہی رولز بنانے ہیں پارلیمنٹ نے ان رولز کے حوالے سے قانون سازی کرنی ہے۔‘
سینیئر قانون دان حامد خان انتخابی اصلاحات کو آرڈیننس کے ذریعے لانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’حکومت کا یہ طریقہ کار بالکل درست نہیں ہے کہ انتخابی اصلاحات کو آرڈیننس کے ذریعے متعارف کروایا جائے کیونکہ اس میں پارلیمان میں موجود دیگر جماعتیں سٹیک ہولڈرز ہیں اور ان سے مشاورت ہونا ضروری ہے۔‘
حامد خان کے مطابق ’الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں کوئی قباحت نہیں ’اس میں کوئی حرج نہیں انڈیا میں بھی اسے استعمال کیا جا رہا ہے اور ایک جدید نظام کو استعمال میں لانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی ضرورت تو نہیں پڑے گی لیکن سینیٹ میں حزب اختلاف کے ارکان کے تعاون کے بغیر ایکٹ میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
’آرڈیننس سے انتخابی اصلاحات لانا انتخابی عمل کو مزید متنازع بنائے گا‘
سینیئر قانون دان رشید اے رضوی سمجھتے ہیں کہ حکومت کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے قانونی طور پر درست مشورے نہیں دیے گئے، ’اس حکومت کو جس طرح کے قانونی رائے دی جارہی ہے وہی ان کو لے ڈوب رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ سے سادہ اکثریت سے اگر ایک چیز منظور کی جا سکتی ہے تو اسے آرڈیننس کے ذریعے لا کر متنازع بنا دیا گیا ہے اور انتخابی عمل کو متنازع بنانے سے اصلاحات تو نہیں کی جائیں گی، پہلے سے ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر شکوک و شبہات موجود ہیں اور حکومت کو اس حوالے سے بحث کروا کر وضاحت کرنا چاہیے تھی کہ اس مشین کو ہیک تو نہیں کیا جا سکتا۔‘
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں حیران ہوں کہ جب حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں عددی تعداد موجود ہے تو آرڈیننس لانے کی ضرورت کیا ہے؟’
انہوں نے کہا کہ ’جو طریقہ حکومت نے اختیار کیا ہے اس سے تو انتخابی عمل مزید متنازع بن جائے گا، انتخابی اصلاحات تو تنازع ختم کرنے کے لیے کی جاتی ہیں لیکن جب آپ بغیر مشورے کے ایک آرڈیننس جاری کریں گے یہ تو پہلے دن سے ہی متنازع بن جائے گا۔‘
احمد بلال محبوب کے خیال میں ’مجھے لگتا ہے حکومت قبل از وقت انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہے اور آرڈیننس کو 240 روز تک لے جا کر قبل از وقت انتخابات کروانے کا بھی سوچ سکتی ہے۔ کیونکہ اس آرڈیننس کا 2023 کے عام انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔‘
احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’یہ ایک بے معنی عمل ہے کہ اربوں روپے لگا کر ایک ایسا نظام لایا جائے جس پر سیاسی طور پر اتفاق ہی پیدا نہیں ہو رہا تو اتنی بڑی رقم لگا کر ایک نیا تنازع کیوں خرید کر لائیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی ممالک ایسے ہیں جو ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہیں لیکن وہ انتخابی عمل میں ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتے۔ ’ہالینڈ، جرمنی اور آئرلینڈ نے الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام متعارف کروا کر دوبارہ بیلٹ پیپر پر آ چکے ہیں کیونکہ اس میں شفافیت نہیں ہے۔‘