وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے دورے کے دوران پاکستانیوں کے لیے روزگار کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت آنے والے دنوں میں وہاں بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت ہو گی جس میں مزدوروں کے علاوہ وائٹ کالر ملازمتیں بھی شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے سعودی عرب نے جو عندیہ دیا ہے وہ خوش آئندہ ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں ایک کروڑ افراد کی ضرورت ہو گی اور اس میں سے وہ ایک بڑا حصہ پاکستان کو دینا چاہتے ہیں جس کے لیے ہمیں آج سے تیاری کرنی چاہیے اور ہمارے ادارے جو ان معاملات کو دیکھتے ہیں ان کو اس کا منصوبہ تیار کرنا چاہیے اور مطلوبہ ضروریات کے مطابق اپنی افرادی قوت کو تیار کرنا چاہیے تاکہ انھیں وہاں(سعودی عرب) بھیج سکیں۔‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ان کی( سعودی عرب) خواہش ہے کہ ہم صرف مزدور طبقہ نہ بھیجیں بلکہ وائٹ کالر نوکویوں میں بھی پاکستانی خود کو پیش کریں۔ ہمارا ہاں بے تحاشا پڑھے لکھے نوجوان ہیں، آئی ٹی کے ماہرین ہیں، اگر ان کی تھوڑی مزید تربیت ہو جائے تو ان کی وہاں بے پناہ ڈیمانڈ اور کھپت ہے۔‘
اس سے پہلے جدہ میں اردو نیوز سے گفتگو میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے سعودی عرب میں پاکستانیوں کے لیے مستقبل میں ملازمت کے مواقعوں کے بارے میں بتایا کہ ’سعودی حکومت نےعندیہ دیا ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں کو مستقبل میں روزگار دیں گے۔ کویت میں بھی ایک بہت بڑی پیش رفت ہو رہی ہے 2011 کے بعد ویزے کھلنے جا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
پاکستان، سعودی عرب کا علاقائی سلامتی، تجارت کو وسعت دینے کا عزمNode ID: 564536
وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ’ سعودی عرب میں پاکستانیوں کے روزگار کے حوالے سے بات تو چل رہی ہے۔ یہ بات آگے چلنی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سعودی ولی عہد کا پاکستان کے ساتھ چلنے اور خطے میں بہت سارے اہم معاملات کے حوالے سے بہت زبردست پروگرام ہے لیکن اس میں کتنی کامیابی ہوتی ہے اور کیسے اس کو آگے لے جایا جا سکتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔‘
یاد رہے کہ سعودی عرب میں اس وقت 20 لاکھ سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں جو مملکت میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایک اور سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ ’میں نے بطور وزیر ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کا منفرد سٹائل، بات کرنے کا سلیقہ اور نتائج حاصل کرنے کا الگ طریقہ ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سعودی عرب کے ساتھ ہم عسکری صورتحال میں بھی آگے بڑھنے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تھوڑے دنوں میں یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ پاکستان کی افواج بھی ہر قسم کے معاملات میں سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی۔‘
شیخ رشید نے اس کی وضاحت سے گریز کیا کہ وہ کون سے معاملات ہیں جہاں پاکستان کی افواج سعودی عرب کے ساتھ ہو گی تاہم انہوں نے بتایا کہ ‘یہ نہیں کہتا کہ کون سا معاملہ ہے اور کون سا نہیں ہے لیکن ہم سجھتے ہیں کہ سعودی ولی عہد کا اس خطے میں ایک تاریخی کردار ہے اور پاکستان ان کے ساتھ مل کر یہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ کے بقول ’ساری دنیا میں اب امن کی بات چل نکلی ہے لیکن کس حد تک کامیاب ہوتی ہے دیکھیں اور انتظار کریں۔ امن کی ہوا کو آگ لگتے دیر نہیں لگتی ابھی کابل میں حملہ ہوا ہے،فلسطین میں صورتحال بگڑ رہی ہے۔‘
سا سے پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے دورہ سعودی عرب، ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے حوالے سے جدہ میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’یہ طے ہوا ہے کہ اب تمام شعبوں میں تعاون آگے بڑھنا ہے۔ خصوصاً توانائی، معاشی تعلقات، سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقع کے شعبوں میں۔‘
انہوں نے کہا کہ’ سعودی عرب کا ایک وژن ہے، ولی عہد نے اس کے خد و خال ہمارے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ ان کی نظر میں اس وژن کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انہیں بے پناہ مین پاور( افرادی قوت) کی ضرورت ہوگی۔‘
شاہ محمود قریشی کے بقول ’سعودی ولی عہد کے خیال میں اگلے 10 سال میں ایک کروڑ افراد کی ضروت ہو گی اور یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی ماضی کی خدمات کو سامنے رکھنے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس ورک فورس کا بڑا حصہ پاکستان کے لوگوں کو اور پاکستان کی عوام کو دیا جائے گا۔‘
شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ’ سعودی عرب میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہمارے پاکستانیوں کے لیے یہ ایک اچھی اور خوش آئند پیش رفت ہے۔‘
