سکول کینٹین میں سموسے بیچنے سے اسسٹنٹ کمشنر بننے تک
سکول کینٹین میں سموسے بیچنے سے اسسٹنٹ کمشنر بننے تک
بدھ 12 مئی 2021 9:22
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
ندیم اورنگزیب نے انتہائی مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مقابلے کا امتحان پاس کیا (فوٹو: اردو نیوز)
’وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی، خاندان کی کفالت کرنے کے لیے سکول کی کینٹین میں سموسے اور برگر بیچنے پر مجبور ہوا، سی ایس ایس انٹرویو کے لیے دوست سے سوٹ ادھار مانگ کر پہنا تھا اور اب اسسٹنٹ کمشنر بننے جا رہا ہوں، یہ سب انتھک محنت اور پڑھائی سے لگن کے سبب ممکن بنا۔‘
یہ الفاظ ہیں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہو کر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز میں شمولیت اختیار کرنے والے ندیم اورنگزیب کے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کے علاقے لورہ سے تعلق رکھنے والے ندیم اورنگ زیب نے سی ایس ایس میں 137 ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔
خیبر پختونخوا میں ان کی تیسری پوزیشن ہے۔ وہ اب اپنی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ملک کے کسی بھی ضلع میں اسٹنٹ کمشنر کے خدمات انجام دیں گے۔
ندیم اورنگزیب کی کہانی محنت پر یقین رکھنے اور مشکل حالات سے نہ گھبرانے کی ایک بہترین مثال ہے۔
گھریلو حالات اور مناسب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ندیم کو اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑنا پڑی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کبھی سکول کی کینٹین چلاتے تو کبھی کریانہ کی دکان کھول لیتے لیکن قدرت نے ان کے لیے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔
ندیم اورنگزیب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف ایس سی میں داخلہ تو ریگولر لیا تھا مگر کام کرنے کی وجہ سے کلاس لگانے کا موقع کم ہی ملتا تھا۔ بی ایس سی میں داخلہ فیس جمع کروانے کے پیسے نہیں تھے، اس لیے بی اے کا پرائیوٹ امتحان ہی دیا اور اس کی فیس بھی ادھار لے کر جمع کروائی تھی۔‘
ندیم اورنگزیب کے والد ایک بینک میں ملازم تھے لیکن نوکری سے برطرف ہونے کے بعد گھر کے معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کی پیدائش کے وقت والد کراچی میں ملازمت کرتے تھے اور گھر کے حالات اچھے تھے۔ میں نے اپنی پری سکولنگ اور دوسری جماعت تک تعلیم اچھے اور بڑے تعلیمی اداروں سے حاصل کی، پھر والد صاحب کا تبادلہ پشاور ہوا تو پشاور شفٹ ہوئے تاہم والد صاحب کو اچانک ملازمت سے برطرف کر دیا گیا جس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔‘
اس کے بعد جمع پونجی ختم ہونے کے بعد انہیں مجبوراً اپنے آبائی علاقے لورہ منتقل ہونا پڑا۔
ندیم اورنگ کہتے ہیں کہ ’لورہ میں پانچویں تک میں ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی۔ پانچویں کے بعد والد کراچی میں ایک چھوٹی موٹی ملازمت مل گئی تھی، ہم کراچی گئے لیکن حالات زیادہ بہتر نہیں ہوئے اور جیسے تیسے کر کے میٹرک تک تعلیم حاصل کرلی اور چوراسی فیصد نمبر حاصل کیے، مگر گھر کے حالات مزید بد تر ہوتے گئے اور میں خود محنت مزدوری کا فیصلہ کیا۔‘
ندیم اورنگ زیب کہتے ہیں کہ ’مجھے والدین نے کام کرنے کا نہیں کہا مگر میں خود محسوس کرتا تھا کہ میری ذمہ داری ہے۔ والد سے اجازت طلب کی تو انہوں نے دکھی انداز میں اجازت دے دی۔ جس کے بعد ایک سکول میں کینٹن پر کام شروع کیا۔‘
تعلیم حاصل کرتے بچوں کو حسرت کی نظر سے دیکھتا
ندیم اورنگزیب بتاتے ہیں کہ ’کینٹین پر جانے سے پہلے ہی ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا تھا مگر کینٹین کے ساتھ کلاس لینے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیے میں نے شام کے وقت اپنے ایک دوست سے پڑھنا شروع کردیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سکول کینٹین کا دور جہاں بہت مشکل تھا وہیں جذباتی طور پر بہت تکلیف دہ بھی تھا۔ میں روزانہ صبح لوکل ٹرانسپورٹ پر ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کرکے سکول پڑھنے نہیں بلکہ برگر، سموسے اور رول فروخت کرنے جاتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس دو سال کے عرصے میں، میں نے سولہ سولہ گھنٹے کام کیا۔ امتحان دیا تو بی پلس گریڈ آیا۔ کینٹین سے کچھ آمدن ضرور ہو جاتی تھی مگر حالات بہتر نہیں ہو رہے تھے، اس لیے کراچی سے راولپنڈی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا کہ اپنے آبائی علاقے کے قریب ہوں گے تو کچھ اخراجات کم ہو جائیں گے۔‘
سی ایس ایس کے امتحان دینے کا مشورہ کس نے دیا؟
ندیم اورنگ زیب اور ان کے خاندان کا اگلا ٹھکانہ راولپنڈی صادق آباد کا علاقہ تھا۔ جہاں انھوں نے اپنے ماموں کے ساتھ محلے میں ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان کھول لی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’دو تین سال تک دکان پر کام کرتا رہا، جہاں چھٹی کا تصور نہیں اس لیے داخلہ کیسے لیا جاتا۔‘
بقول ان کے ’کریانے کی دکان پر ایک آٹھویں کلاس کے طالب علم کی پڑھائی میں مدد کی تو اس کے بعد ٹیوشنز ملنا شروع ہو گئیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’تعلیم کے تین چار سال ضائع کرنے کے بعد میں نے گریجویشن کے لیے دو سالہ بی اے کا پرائیوٹ داخلہ بھیجا اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔
ندیم کا کہنا تھا کہ اس دوران ایک اسٹنٹ کمشنر کے بھانجے کو پانچ ہزار روپے کے عوض رمضان میں گرمی میں ٹیوشن پڑھانے کے لیے روز پبلک ٹرانسپورٹ پر جاتا تھا۔ ان سے ایک دو ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے سی ایس ایس کرنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی اپنے لیے بلا ضرورت نئے کپڑے اور جوتے خریدے ہوں۔ اگر کبھی کچھ پیسے بچ جاتے تو میں کتابیں خریدتا تھا۔ سی ایس ایس انٹرویو کے لیے میرے پاس کوئی ڈھنگ کا سوٹ نہیں تھا، ایک دوست سے ادھار لے کر پہنا اور انٹرویو دیا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کبھی کسی رشتہ دار کی شادی پر نہیں گیا کیونکہ میرے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں تھا، کبھی دوستی نہیں ملی کیونکہ محفلوں کے لیے وسائل نہیں تھے۔‘
ان کے والد محمد اورنگزیب کہتے ہیں کہ ’ندیم جب سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہوئے تو سب سے پہلے مجھے فون پر اطلاع دی۔ تو خوشی سے آنسو نکل آئے، شکرانے کے نوافل ادا کیے، حال ہی میں میری رکی ہوئی تنخواہیں عدالتی فیصلے کے بعد ملنا شروع ہوئی ہیں اور اب حالات بدل رہے ہیں۔‘
ندیم اورنگزیب کہتے ہیں ’میں چاہتا ہوں کہ میری کہانی سے نوجوان سیکھیں کہ مشکل کوئی بھی ہو، گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر محنت، ہمت اور سچی لگن ہو تو مشکل وقت ضرور ختم ہوتا ہے اور اچھے دن شروع ہوتے ہیں۔