ہمارے ہاں خواتین کا تھانوں میں جانا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی اور وہاں خواتین کو کئی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، خواتین کو پیش آنے والے انہی مسائل کو حل کرنے کے لیے پولیس سروس آف پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔
یہ کہنا ہے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی زینب خالد کا جنہوں نے سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحان میں صوبے میں ساتویں جبکہ خواتین میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
زینب خالد کا تعلق ضلع مانسہرہ کے نواحی علاقے گڑھی حبیب اللہ سے ہے اور انہیں اپنے ضلعے میں پہلی خاتون پی ایس پی افسر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان کی پہلی ہندو خاتون پولیس افسرNode ID: 432271
-
’سفر مشکل لیکن حوصلہ پہاڑ ہلا ڈالتا ہے‘Node ID: 486131
-
ہسپتال کے بستر پر امتحان کی تیاری کرتا کورونا کا مریضNode ID: 561551
ایک متوسط گھرانے اور روایتی پشتون خاندان سے تعلق رکھنے والی زینب خالد کے والد بینکنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے زینب نے بتایا کہ ’وہ اپنے خاندان اور علاقے میں پہلی سی ایس پی افسر بننے جارہی ہیں اور پورا علاقہ ایک خاتون کی کامیابی پر خوش ہے۔‘
’سی ایس ایس کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ میں روایتی سوچ کو ختم کروں کہ خواتین مخصوص شعبوں تک ہی محدود ہو کر کام کر سکتی ہیں، اب میری کامیابی پر پورا علاقہ خوش ہے یہی میری کامیابی ہے۔‘
زینیب خالد نے بتایا کہ ’انہوں نے پرائمری تعلیم گڑھی حبیب اللہ کے مقامی جبکہ میٹرک کی تعلیم ایک نجی سکول سے حاصل کی اور ایبٹ آباد بورڈ میں بھی پوزیشن حاصل کی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرے والدین نے میری دلچسپی اور کامیابی کو دیکھتے ہوئے مجھے تعلیم جاری رکھنے کی مکمل آزادی دی جس کے لیے مجھے روایتی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔‘
’میرے والدین ہمیشہ مجھے سپورٹ کرتے رہے اور روایتی پشتون خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود مجھے یونیورسٹی اور ہاسٹل میں داخلہ لینے کی بھی اجازت دی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جب بھی میرے والدین کو بچیوں کو تعلیم دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تو امتحانات میں میرے نتائج ہمیشہ ایسے ناقدین کو خاموش کرنے کا سہارا بنتے۔‘

پولیس سروسز کا انتخاب کیوں؟
زینب خالد بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے ملک کی اور لوگوں کی خدمت کے لیے سی ایس ایس کا انتخاب کیا، پہلے میں ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی تھی لیکن اللہ کو ایسا منظور نہیں تھا اور میں انٹری ٹیسٹ پاس نہ کر سکی۔‘
’سی ایس ایس کرنے کا مقصد براہ راست عوام کی خدمت کرنا اور ملک کے لیے خدمات سرانجام دینا تھا، اسی لیے میں نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس سروسز کو ہی ترجیح دی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور بطور خاتون پولیس افسر میرا مقصد خواتین کو تھانے میں پیش آنے والے مسائل کو حل کرنا ہے۔‘
’ہمارے ملک اور خاص طور پر خیبرپختونخوا میں خواتین کے حوالے سے ایک مخصوص سوچ پائی جاتی ہے، یہاں خواتین کا تھانے میں جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔‘
’ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی کو تو آگے آنے کی ضرورت تھی اور اسی لیے میں نے پولیس سروسز کا انتخاب کیا۔‘
