پنجاب پولیس نے اقدام خودکشی کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے۔ پنجاب پولیس نے اقدام خودکشی پر سزا کے حوالے سے کی گئی ٹویٹ پر تنقید کیے جانے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پوسٹ کا مقصد قانونی آگہی تھا کسی کی دل آزاری یا ٹارگٹ کرنا نہیں تھا۔
پیر کو پنجاب پولیس کی طرف سے پوسٹ کی گئی اس ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’ خود کشی کفران نعمت اور اللہ کے نزدیک سخت نا پسندیدہ فعل ہے۔‘
اس سے قبل سنیچر کو پنجاب پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کی گئی ہے جس میں ایسے انتہائی قدم اٹھانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’وقت اور حالات بدل جائیں گے لیکن یہ زندگی دوبارہ نہیں ملے گی۔‘
مزید پڑھیں
-
تھرپارکر: تین دن میں نو خودکشیاں، وجہ کیا ہے؟Node ID: 441526
-
جدہ میں انڈین کارکن نے خود کشی کیوں کی؟Node ID: 460951
-
چچا زاد بھائی اور داماد کو قتل کرکے خودکشی کرلیNode ID: 498411
اس ٹویٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی گئی ہے جس میں خودکشی کا ارادہ رکھنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’خودکشی کرنا جرم ہے، بچ جانے کی صورت میں ایک سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔‘
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خودکشی سے بچ جانے کی صورت میں ایک سال تک سزا دینے کی تنبیہہ کرنے پر پنجاب پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ماہرین بھی اس آگاہی مہم کے دوران سزا دینے کے عمل کو ’ناقابل فہم‘ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 325 کے تحت اقدام خودکشی یا ایسا کوئی عمل کرنے والے افراد کو ایک سال تک قید اور جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
خود کشی کفران نعمت اور اللہ کے نزدیک سخت نا پسندیدہ فعل ہے.#PunjabPolice pic.twitter.com/uMrxX2aneW
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) May 24, 2021
سابق انسپکٹر جنرل سندھ پولیس افضل شگری اقدام خودکشی کے خلاف مہم کے دوران ایک سال تک قید ہونے کی تنبیہہ دینے کو ناقابل فہم قرار دیتے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے افضل شگری نے کہا کہ ’سیکشن 325 کے قانون پر اب نظر ثانی کرنی چاہیے اور یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اور اسے ضائع نہ کریں یہ بات تو مناسب تھی لیکن یہ کہنا کہ آب بچ گئے تو پھر آپ کو سزا ہوگی، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے آپ پیغام دے رہے ہیں کہ پکا کام کرو ورنہ سزا ہو جائے گی۔‘
اقدام خودکشی کے قانون کے حوالے سے سابق آئی جی سندھ افضل شگری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس قانون کو بھوک ہڑتال کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا، جو لوگ بھوک ہڑتال کرتے تھے انہیں ہم ڈراتے تھے کہ آپ کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایک سنجیدہ نوعیت کے معاملے کی آگاہی مہم کے دوران اس قانون کا حوالہ دینا ایک نامناسب عمل ہے۔’اب یہ بحث چھڑ گئی ہے تو یہ ایک موقع ہے کہ نہ صرف اس قانون کو بلکہ اس قسم کے تمام قوانین پر جدید تقاضوں کے تحت نظر ثانی کرنی چاہیے۔‘
افضل شگری کے مطابق انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں یہی قانون رائج ہے، لیکن ’ایسے افراد کو جیل کو بھیجنے کے بجائے نفسیاتی طور پر مدد کرنی چاہیے اور اس انتہائی قدم اٹھانے کے پیچھے وجوہات تلاش کر کے معاشرے کی مدد سے ان مسائل کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
جیلوں میں نفسیاتی صحت متاثر ہونے والے افراد کو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں؟
پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق سرکاری سطح پر پاکستانی جیلوں میں قید نفسیاتی طور پر متاثرہ قیدیوں کی تعداد 600 کے قریب بتائی جاتی ہے لیکن ملک بھر میں 70 ہزار کے قریب قیدی ہیں اور ان میں صرف 600 قیدی نفسیاتی طور پر متاثر ہونے کے سرکاری تعداد کو درست نہیں کہا جاسکتا۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی بانی سارہ بلال اقدام خودکشی کے حوالے پنجاب پولیس کے مہم کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’ہمیں انسانی صحت بالخصوص نفسیاتی صحت کے بارے میں اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، نفسیاتی طور پر متاثرہ شخص کو سزا کے بجائے مناسب دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جیل کبھی بھی ایک ایسے شخص کی جگہ نہیں ہوسکتی جو پہلے سے ہی افسردہ ہو اور اس وجہ سے وہ اپنی زندگی ہی ختم کرنے کی حد تک جا چکا ہو۔
سارہ بلال کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ جیل میں قیدیوں نے خودکشی کی یا ایسا قدم اٹھانے کی کوشش کی ہے، دوران قید کے انسان کی صحت زیادہ تیزی سے بگڑتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قید رہنے کے دوران وہ دوبارہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔‘
