’رشتے کے لیے 240 کلو میٹر پیدل پہنچا تو لڑکی کی منگنی ہو چکی تھی‘
’رشتے کے لیے 240 کلو میٹر پیدل پہنچا تو لڑکی کی منگنی ہو چکی تھی‘
جمعرات 27 مئی 2021 5:18
عبداللہ آل وحید آج بھی 40 سال پرانی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ (فوٹو سبق)
سعودی عرب میں الافلاج کمشنری کی الھدار کے بزرگ سعودی شہری نے ماضی کی زندگی کے حوالے سے کہا ہے کہ زندگی پہلے بڑی مشکل تھی لیکن اب آسان ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق عبداللہ آل وحید نے جو عمر کے نویں عشرے میں ہیں اور بانی مملکت شاہ عبدالعزیز کا اقتدار دیکھ چکے ہیں، نے کہا کہ ’40 برس قبل جو گاڑی 22 ہزار ریال میں خریدی تھی آج بھی اسی سے سفر کرتے ہیں۔ بیٹوں کی ضد ہے کہ نئی گاڑی لوں لیکن مجھے اپنی پرانی گاڑی بے حد عزیز ہے۔ میری گاڑی میری پہچان بن گئی ہے جسے دیکھ کر لوگ پتہ لگا لیتے ہیں کہ میں گھر پر ہوں یا خاندان کے کسی فرد سے ملنے گیا ہوا ہوں۔‘
آل وحید نے بتایا کہ ماضی میں کبھی کئی کئی روز تک کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ’ایک بار میرے والد اور بڑی بہن ریاض چلے گئے۔ میں اور میری والدہ تین دن تک بھوکے رہے۔ بھوک کی شدت سے میں رویا تو ماں نے گھر کا سامان ایک (فرانسیسی ریال) میں فروخت کیا۔ اس زمانے میں سعودی سکہ فرانسیسی ریال کے نام سے جانا جاتا تھا۔ فوری طور پر ایک کھجور فروش کے پاس اپنے اور والدہ کے لیے کھجوریں خریدنے گیا۔ دکاندار نے یہ کہہ کر ریال اپنے قبضے میں کرلیا کہ تمہارے ابا سامان لے گئے تھے اور انہوں نے مجھے پیسے نہیں دیے تھے۔ میں روتا ہوا ماں کے پاس یونہی چلا آیا۔‘
آل وحید نے بتایا کہ والدہ سادہ قسم کا کھانا تیار کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پتھر کاٹ کر کھانے پینے کا بندوبست کرتے تھے۔ مہینے میں نصف ریال محنتانہ ملتا تھا۔
آل وحید کا کہنا تھا مشرقی الافلاج کے السیح مقام پر پیدل چل کر رشتہ لے کر گیا تھا پہنچنے پر پتہ چلا کہ جس لڑکی سے میں منگنی کرنا چاہتا تھا اس کا رشتہ کسی اور سے ہوگیا ہے۔
’کبھی نہیں بھول سکتا کہ میں نے 240 کلو میٹر کا سفر پیدل طے کیا تھا اور مقصد بھی پورا نہیں ہوا تھا۔‘
بزرگ شہری نے بتایا کہ وہ الناصریہ میں سیب کے درخت لگایا کرتے تھے۔ ’شاہ عبدالعزیز قصر الحکم جا رہے تھے اسی دوران ایوان شاہی کے کارندے نے مجھے بلایا اور شاہی قصر کے مہمان خانے آنے کے لیے کہا۔ مجھے سبق سکھایا کہ اگر کوئی تم سے پوچھے کہ تم کون ہو تو کہہ دینا کہ میں ان کا بیٹا ہوں۔‘
اس طرح شاہی مہمان خانے سے کئی دن تک کھانا کھاتے رہے۔ رفتہ رفتہ محل کے لوگ مجھے پہچان گئے اور مجھے ملازمت مل گئی۔
آل وحید نے نئی نسل کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آج جو خوشحالی نصیب ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرو۔ اگر ماضی کے دشوار حالات دیکھے ہوتے اور بھوک مٹانے کے لیے محنت مشقت کرنا پڑتی تو اس کا اندازہ ہوتا۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کیخبروں کے لیے”اردو نیوز“گروپ جوائن کریں