Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گرمیاں شروع ہوتے ہی لوڈ شیڈنگ: کیا مسئلہ گنجائش ہے یا ترسیل؟

غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام، کاروباری طبقے اور طلباء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں حکام کے مطابق ملکی ضروریات سے زیادہ بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور اضافی بجلی استعمال نہ ہونے کے باوجود حکومت کو اس کی قیمت ادا بھی کرنا پڑتی ہے تاہم موسم گرما کے آغاز سے ہی مختلف علاقوں میں لوڈشیڈنگ کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
اس حوالے سے پاور ڈویژن کے ترجمان سے رابطہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ ملک میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 35 سے 37 ہزار تک موجود ضرور ہے، لیکن اتنی تعداد میں بجلی کبھی پیدا نہیں کی گئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا بجلی کی ترسیلات کا نظام ہی 25 ہزار میگا واٹ سے زائد ترسیل برداشت نہیں کر سکتا۔
’یہی وجہ ہے کہ مختلف تقسیم کار کمپنیاں کچھ علاقوں میں ضرورت کے مطابق اور سسٹم کو مستحکم رکھنے کے لیے لوڈمنیجمنٹ کر رہی ہیں۔‘
ترجمان پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ ’ملک میں اس وقت لوڈ شیڈنگ نہیں بلکہ لوڈ مینجمنٹ ہو رہی ہے۔ جس کے لیے عوام سے معذرت خواہ ہیں۔ اس وقت ملک میں بجلی کا شارٹ فال 800 میگا واٹ ہے۔ تاہم این ٹی ڈی سی کے پورٹ قاسم مٹیاری 500 کے وی ہائی ٹرانسمیشن ٹاورز کی تنصیب مکمل ہوگئی ہے۔ پورٹ قاسم پاور پلانٹ سے 1250میگاواٹ کی بجلی کی ترسیل بھی اس لائن سے شروع ہو رہی ہے۔ اس ٹرانسمیشن لائن کی بحالی سے شارٹ فال ختم ہو جائے گا۔ ‘
اس سوال کے جواب میں کہ سرپلس بجلی کے باوجود شارٹ فال کیوں ہے تو ترجمان نے کہا کہ ’سرپلس بجلی پیدا نہیں کی جا رہی۔ موسم کے لحاظ سے طلب میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس وقت شارٹ فال 800 ہے جو شدید موسم کے باعث 850 میگا واٹ تک جاتا ہے۔‘
دوسری جانب غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام، کاروباری طبقے اور طلباء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ ہفتے شدید گرمی کے باعث ملک کے کئی علاقوں کو طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا ہے۔

پاور ڈویژن کے مطابق پاکستان کا بجلی کی ترسیلات کا نظام 25 ہزار میگا واٹ سے زائد ترسیل برداشت نہیں کر سکتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی، لاہور، پشاور، ملتان، راولپنڈی، گجرات، کوئٹہ اور فیصل آباد سمیت کئی دیگر شہروں میں شیڈول لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع گیا ہے۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے دکاندار حاجی امجد دودھ، دہی، قلفی، کھیر، برفی اور مٹھائیوں کی دکان چلاتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمارا کھانے پینےکا کاروبار ہے، جونہی گرمی کا موسم شروع ہوا تو پہلے وولٹیج کم ہوئی اور پھر غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس سے فریزر میں رکھی گئی اشیاء خراب ہونا شروع ہو گئیں۔ غیر یقینی صورت حال کے باعث مالی نقصان سے بچنے کے لیے اب محدود تعداد میں چیزیں تیار کرکے فریز کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس 10 سے زائد فریزرز ہیں۔ ان کی وولٹیج برابر رکھنے کے لیے سٹیبلائزرز استعمال کرتے ہیں۔ اب جب طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا ہے تو جب بجلی واپس آتی ہے تو اس کی وولٹیج 160 واٹ سے 260 کے درمیان اوپر نیچے جاری رہتی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے فریزر اکثر جل جاتے ہیں۔ یہی ہمارا بڑا نقصان ہے۔‘
انھوں نے لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے درپیش مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک وولٹیج کا مسئلہ تھا تو کام چلا رہے تھے اب جب طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہوئی ہے تو فریزر میں پڑی اشیاء خراب ہو جاتی ہیں۔ جو ضائع کرنا پڑتی ہیں کیونکہ اگر بجلی بندش کے دوران فوڈ اتھارٹی کا چھاپہ پڑ جائے تو وہ بالکل بھی نہیں دیکھتے کہ بجلی بند ہے لیکن ہزاروں روپے جرمانہ کرکے چلے جاتے ہیں۔‘

محمد شفیق کہتے ہیں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے رمضان میں بالخصوص کام کاج بری طرح متاثر ہوا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حاجی امجد کا مزید کہنا تھا کہ ’جب بجلی کی بندش کا کوئی شیڈول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے کام پر پوری توجہ نہیں دے سکتے۔ اپنی دکان کے حجم اور گاہکوں کی طلب کے مطابق سامان بھی تیار نہیں کر سکتے۔ جب ہر وقت یہ دھڑکا لگا ہو کہ کسی بھی وقت بجلی جا سکتی ہے تو پھر صرف اتنا ہی مال تیار کرتے ہیں جو ساتھ ساتھ فروخت ہو جائے۔ اس وجہ سے ہماری سیل بری طرح متاثر ہوتی ہے۔‘
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے محمد شفیق پیشے کے اعتبار سے درزی ہیں اور ایک ٹیلرنگ شاپ چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں پہلے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورا سال بالعموم اور رمضان میں بالخصوص کام کاج بری طرح متاثر ہوا۔ اب بجلی کی وجہ سے گاہکوں کو دیے گئے وقت پر کپڑے تیار نہیں ہوتے تو آمدن تو متاثر ہوتی ہی ہے ساتھ میں ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔‘

شیئر: