Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجٹ اجلاس: حکومت چھوٹی سیاسی جماعتوں کی محتاج کیوں؟

بجٹ اجلاس کے دوران وزیراعظم کی اسمبلی میں موجودگی بہت سے ارکان کے لیے مفید رہتی ہے (فوٹو: پی آئی ڈی)
پاکستان میں وفاقی بجٹ کا سیزن آتے ہی اسلام آباد کے طاقتور ایوانوں اور پارلیمنٹ کے کمیٹی رومز میں ملاقاتوں، ظہرانوں اور عشائیوں کا سلسلہ سا شروع ہو گیا ہے اور حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہی پچھلی نشتوں پر بیٹھنے والے اراکین اسمبلی کو راضی کرنے میں مصروف ہو گئی ہے۔
گذشتہ ہفتے وزیراعظم نے اتحادی جماعت متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) کے ایک وفد سے ملاقات کر کے ان کے مطالبات سنے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ملاقات کے دوران صوبہ سندھ اور بالخصوص کراچی کے مسائل، ترقیاتی ضروریات، آئندہ بجٹ کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوں اور دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی اتحاد کے امور پر بات چیت کی گئی۔
اس سے قبل گذشتہ ماہ ترین گروپ کے اعلان کے بعد حکومتی ارکان کی دوڑیں لگ گئی تھیں اور جیسے تیسے وزرا اور دیگر اعلی عہدیدروں نے ترین گروپ کے اہم ممبران سے ملاقات کر کے انہیں بجٹ میں حمایت پر راضی کیا تھا جس کے بعد حکمران جماعت نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔
گذشتہ دنوں اردو نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں ترین گروپ کے حوالے سے حکومتی مشکلات پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت پر دباؤ چند دن (بجٹ سیشن) تک رہتا ہے پھر معاملہ پورے سال کے لیے آگے چلا جاتا ہے۔‘
تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ گذشتہ سال بھی بجٹ سیزن کے دوران ہی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا بجٹ گزرا ہو جس سے قبل وزیراعظم کی اپنی اتحادی جماعتوں اور اراکین اسمبلی سے گرمجوش ملاقاتیں نہ ہوئی ہوں۔ ان ملاقاتوں کے بعد حکومت کی جانب سے جاری بیانات میں بھی حکومت اپنے اتحادیوں اور ارکان کی عظمت کے گن گاتی نظر آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی ایسی کیا مجبوری ہوتی ہے کہ بجٹ سے قبل اتحادیوں کی رضا حاصل کرنے میں جت جاتی ہے اور اتحادی بھی اس سنہری موقع پر مطالبات کی فہرست حکومت کے حوالے کیوں کرتے ہیں؟ 

وزیراعظم عمران خان کا منشور تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ارکان کا ترقیاتی فنڈ ختم کر دیں گے۔ (فوٹو: قومی اسمبلی)

بجٹ پاس کرنے کی مجبوری

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئیر تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ بجٹ پاس کرانا حکومت کے لیے ایسے ہوتا ہے جیسے نئے سرے سے حکومت تشکیل دینا۔ یہ خطرہ خاص طور پر کمزور عددی اکثریت والی حکومتوں کو زیادہ ہوتا ہے کہ شاید بجٹ پاس نہ کروا سکیں۔ اگر حکومت بحٹ پاس نہ کروا سکے تو وہ پھر سنبھل نہیں سکتی ۔اس لیے جب حکومت کے پاس اپنی اکثریت نہ ہو اور اتحادی حکومت بنائے تو اسے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو راضی رکھنا پڑتا ہے۔ 
رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’جن ممالک میں پارلیمانی روایات مضبوط ہوں وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ حکومتیں اس طرح بلیک میل ہوں بلکہ ایک ووٹ سے بنی حکومتیں بھی مدت پوری کرتی ہیں مگر پاکستان میں حکومتوں کو ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے کہ اپنی جماعت کے یا اتحادی ارکان دوسری طرف چلے جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ماضی میں کراچی سے ایم کیو ایم اور بلوچ قوم پرست جماعتیں تقریبا ہر بجٹ سے قبل سیاسی مطالبات پیش کر دیتے تھے جو کبھی پورے ہو جاتے اور کبھی نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جمہوریت نہیں دھڑے بندی اور گروہی مفادات کی سیاست ہے۔ اسی طرح بجٹ سے قبل اپنی جماعت کے ایم این ایز یا ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈ بھی دیے جاتے ہیں حالانکہ وزیراعظم عمران خان کا منشور تھا کہ اقتدار میں آ کر وہ اس فنڈ کو ختم کر دیں گے تاہم چونکہ وزیراعظم پارلیمانی نظام میں اکثریت سے ہی بنتا ہے تو اسے ارکان کی بات ماننا پڑتی ہے۔‘
رسول بخش رئیس کے مطابق ترقیاتی فنڈز ایک قسم کی سیاسی رشوت ہے کیونکہ ارکان اپنے ٹھیکیداروں کے ذریعے کام کرواتے ہیں اور اپنی مرضی کا کام کرواتے ہیں۔ دوسری طرف ارکان اسمبلی حکومت سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر علاقے میں کام نہ کروائے تو ووٹ کون دے گا۔

حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کو راضی کرنے میں مصروف ہو گئی ہے۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)

یہ بلیک میلنگ ہوتی ہے؟

مصنف اور تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ بجٹ اجلاس کے دوران سیاسی بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے کیونکہ اگر اتحادی اگر اس دوران اپنی حمایت ختم کر دیں تو حکومت مشکل میں پڑ جائے گی اور بجٹ منظور نہ ہو تو حکومت قائم نہیں رہتی۔ اسی وجہ سے حکومت عام طور پر مطالبات مان جایا کرتی ہے۔ کچھ جماعتیں ایسا ہر سال کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے پاس آپشن ہوتا ہے کہ وہ سٹینڈ لے اور بلیک میل نہ ہو تاہم ہماری سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط نہیں ان میں اپنی خامیاں ہیں۔‘
ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق سیاسی جماعتوں کو اپنا انتظام مضبوط کرنا چاہیے پاکستان میں کسی جماعت میں سبسکرپشن کا باقاعدہ نظام نہیں نا ہی ممبرز کی لسٹیں ہیں صرف ایک اخبار میں خبر آتی ہے کہ فلاں نے اپنی جماعت بدل لی اور یہ کافی ہو جاتا ہے۔

بجٹ اجلاس چند ارکان کے لیے خوشیوں کی نوید 

پارلیمانی امور کے ماہر اور قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی کا کہنا تھا کہ سنہ 1985 سے وہ ہر سال یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ جہاں حکومت کے لیے بجٹ سیشن ایک مشکل ٹیسٹ کا وقت ہوتا ہے وہیں پچھلی نشتوں پر بیٹھے ارکان اور اتحادی جماعتوں کے لیے اچھا وقت لے کر آتا ہے۔

بجٹ پاس کرانا حکومت کے لیے ایسے ہوتا ہے جیسے نئے سرے سے حکومت تشکیل دینا۔ (فوٹو: قومی اسمبلی)

ان کا کہنا تھا کہ چند ارکان اسمبلی پورا سال وزیراعظم سے ملاقات کے منتظر رہتے ہیں تاہم انہیں یہ موقع بجٹ سیشن میں میسر آتا ہے کیونکہ وزیراعظم اس سیشن میں کم و بیش ہر روز اسمبلی آتے ہیں تاکہ بجٹ کی منظوری کے وقت ارکان کی تعداد پوری رہے۔ اس دوران وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے چیمبر میں ہر روز ارکان سے ملتے اور ان کے مسائل سنتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ اتحادیوں اور ارکان اسمبلی کو پورا سال خوش رکھے تاہم بجٹ سیشن کے دوران ایسا ممکن بھی ہوتا ہے اور ضروری بھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق بجٹ سیشن میں حکومتی ارکان اسمبلی کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ موجود ہوں اور حکومت کو ووٹ دیں تاہم بیماری وغیرہ کا عذر بنا کر غیر حاضر رہنا ناممکن نہیں اس لیے حکومت اس ڈر سے اپنے ارکان کو خوش ہی رکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔

شیئر: