اگر آپ نئی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں اور آپ گاڑی کی رقم ادا کرنا بھی چاہیں تو پاکستان میں نئی گاڑی خریدنے کے لیے بکنگ کے بعد بھی آپ کو چھ سے آٹھ ماہ کا انتظار کرنا ہوگا۔ اس نظام کو گاڑیوں کی مارکیٹ میں ’اون منی‘ کلچر کہا جاتا ہے۔
اون منی کلچر میں مختلف سرمایہ کاروں نے گاڑیوں کی بکنگ کی ہوتی ہے اور اضافی رقم ادا کرنے پر ان سرمایہ کاروں کی جانب سے بک کی گئی گاڑی آپ کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
لیکن ہر سال کی طرح رواں برس بھی بجٹ سے قبل شورومز مالکان کی جانب سے گاڑی کی بکنگ کی صورت میں فوری گاڑی دینے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہNode ID: 430806
-
گاڑیوں کی درآمد، انٹرنیشنل اکاؤنٹ کی شرط ختمNode ID: 521731
-
2021 میں کون سی گاڑی خریدنی چاہیے؟Node ID: 526596
اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہر سال حکومت بجٹ میں پرانی گاڑیوں کی درآمد سے متعلق فیصلے کرنے جا رہی ہوتی ہے، اس لیے ہر سال پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنی حکومت کو یہ تاثر دیتی ہیں کہ ہم فورا گاڑیاں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج بھی اون منی کے بغیر مارکیٹ میں گاڑی فروخت نہیں کی جارہی ہے۔ حکومت نے اون منی کلچر کو ختم کرنے کے لیے کچھ اقدامات تو کیے ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں۔‘
’آج بھی مختلف کمپنیوں کی طرف سے نئی گاڑیاں متعارف کروائی گئی ہیں جن کی قیمت کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا لیکن ان کی بکنگ اس وقت جاری ہے۔‘
ایچ ایم شہزاد کے مطابق ’وفاقی حکومت نے بجٹ سے قبل گاڑیوں کی پالیسی پر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی تھی اور بجٹ پروپوزل مانگا گیا تھا۔ امید ہے کہ پرانی گاڑیوں اور نئی گاڑیوں پر ڈیوٹیز میں کمی آئے گی اور پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈیوٹی میں کس حد تک کمی کی جائے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا وزارت خزانہ کی جانب سے گاڑیاں درآمد کرنے کی پالیسی تبدیل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔‘
وفاقی پارلیمانی سیکریٹری عالیہ حمزہ ملک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ آنے والے بجٹ میں حکومت کی جانب آٹو انڈسٹری کے لیے خصوصی پیکج شامل کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’نہ صرف آٹو پارٹس پر ڈیوٹی کے حوالے سے اہم فیصلے لینے جارہے ہیں بلکہ ملک میں آٹو پارٹس کی مینوفیکچرنگ کے پلانٹس کو بھی رعایت دی جائے گی جس سے ملک میں نئے پلانٹس لگائے جائیں گے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت 17 نئی کمپنیاں پاکستان میں آٹو مینوفیکچرنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں جبکہ سات پلانٹس نے کام شروع کر دیا ہے جس کے ذریعے ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ملک میں آئے گی۔
عالیہ حمزہ ملک کے مطابق پاکستان میں عالمی معیار کی گاڑیاں اسبمل نہیں کی جارہی ہیں جبکہ عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں، ’اس بجٹ میں آٹو پالیسی کے تحت نئی کمپنیاں پاکستان میں متعارف ہوں گی جس سے بہتر فیچر کے ساتھ سستی گاڑیاں فراہم ہوں گی۔‘
گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندی سے متعلق عالیہ حمزہ ملک کا کہنا تھا کہ ’حکومت گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہی لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں انڈسٹریز کے دروازے بھی کھلیں جس سے روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں، صرف ضروری اشیا اور خام مال درآمد ہونے والی اشیا پر ٹیکس مراعات کی طرف جارہے ہیں۔‘
پاکستان کے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے آٹو پالیسی کے بارے میں اپنے ایک ٹویٹ بیان میں کہا ہے کہ آج وزیر اعظم عمران خان آٹو پالیسی کی منظوری دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس پالیسی کے تین اہداف ہیں۔ ایک گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی، دوسرا گاڑیوں کی مقامی سطح پر زیادہ سے زیادہ پیداوار اور تیسرا گاڑیوں کی ایکسپورٹ میں اضافہ۔‘
آج وزیراعظم پاکستان نئی آٹو پالیسی کی منظوری دیں گے-جس کے تین اہداف ہیں-
1- گاڑیوں کی قیمت کم کی جاسکے تا کہ مڈل کلاس بھی خرید سکے۔
2-گاڑیوں کی زیادہ سے زیادہ پیداوار /اسمبلی لوکل ہو
3-گاڑیوں کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو۔
خسرو بختیار اور حماد اظہر اور انکی ٹیم مبارکباد کی مستحق
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) June 9, 2021