سارنگی کا یہ نام کیوں پڑا، اس پر مختلف آرا موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سابقہ تحریروں میں لفظ ’جنت‘ کے بارے میں پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ یہ عربی لفظ ہے، جس کا مادہ جنّ (ج ن ن) ہے، جس کے معنی کسی چیز کو حواس سے پوشیدہ کرنے کے ہیں۔ اس مادے سے بنے والے الفاظ میں اخفا یا اوجھل ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلاً ڈھال کو ’جُنَّۃ‘ کہتے ہیں کہ حملہ آور کے وار سے بچنے کے لیے اس کے پیچھے چھپا جاتا ہے۔
پھر ’جنت‘ ہر اُس باغ کو کہتے ہیں جس کی زمین درختوں کی کثرت کے وجہ سے نظر نہ آئے۔ علامہ راغب اصفہانی کے مطابق بہشت کو جنت یا تو دنیاوی باغ سے تشبیہ دے کر کہا گہا ہے یا پھر اس لیے کہا گیا ہے کہ بہشت کی نعمتیں ہم سے مخفی رکھی گئی ہیں۔
ذرا لفظ ’جَنَیِن‘ پر غور کریں جو شکم مادر میں موجود بچے کے لیے بولا جاتا ہے، یہ لفظ بھی ’ج ن ن‘ کے مادے سے بنا ہے، چوں کہ پیدائش سے پہلے تک بچہ عام انسانی نگاہ سے اوجھل ہوتا ہے اس لیے ’جنین‘ کہلاتا ہے، پھر قبر کو بھی ’جنین‘ کہا جاتا ہے کہ دفن ہونے والے کو چھپا لیتی ہے۔
لفظ ’جن‘ ہی کو دیکھ لیں، اس کا اطلاق جس مخلوق پر کیا جاتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتی۔ عربی میں ’جن‘ ہی کی سی ایک مخلوق ’غول‘ کا تصور پایا جاتا ہے۔ لغت نویسوں کے مطابق ’غول‘ ویرانوں اور بیابانوں میں رہتا ہے، یہ مسافروں کو راستہ بُھلاتا، صورت بدل بدل کر ڈراتا اور انہیں ہلاک کردیتا ہے۔
اس کے اردو مترادفات میں بھوت، پریت، چھلاوا اور دیو شامل ہے۔ اسے فارسی کی رعایت سے اردو میں رائج ترکیب 'غول بیابانی' میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ دیکھیں 'نصر غزالی' کیا کہہ رہے ہیں:
شہر ہو یا ہو بیاباں، گھر ہو یا کوئی کھنڈر
سلسلہ چاروں طرف غولِ بیابانی کا ہے
اب لفظ 'جہنم' کی بات کرتے ہیں جو عربی، فارسی اور اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ یہ معرب لفظ ہے، یعنی اس کی اصل عربی نہیں بلکہ اسے عربی لہجے میں ڈھالا گیا ہے۔ ماہرین فرہنگ 'جہنم' کی اصل عبرانی لفظ 'کَھَنّام' بتاتے ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک اس کی اصل عبرانی کا 'جھینون' ہے، جو عربی میں پہنچ کر 'جہنم' ہوگیا ہے۔
معروف عالم اور محقق سید سلیمان ندوی لفظ 'جہنم' کی اصل عبرانی لفظ 'گے ہنّوم' بتاتے اور معنی 'وادیِ ماتم ' قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'اس سے مراد یروشلم کے جنوب اور مغرب میں واقع وہ وادی ہے جہاں بعض اسرائیلی 'مولک' نامی بت پر اپنے بچوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے۔
اس علاقے کی گھناؤنی رسموں سے تنفر پیدا کرنے کی غرض سے اس جانب شہر کے گندے پانی کو موڑ دیا گیا۔ یہاں گندگی پھینکی جانے لگی اور لاشیں جلائی جانے لگیں۔ گندگی کے اثرات نہ پھیلنے دینے کی غرض سے یہاں مستقل آگ جلائی جاتی تھی اور اس طرح یہ دائمی عذاب کا استعارہ بن گئی۔'
لفظ 'کَھَنّام، جھینون اور گے ہنّوم' کی موجودگی میں یہ بات طے ہے کہ 'جہنم' عبرانی الاصل لفظ ہے۔ ان تینوں الفاظ میں صوتی تبدیلی کے بعد عربی زبان میں 'جہنم' بن جانے کی گنجائش موجود ہے۔
جہنم کو سنسکرت میں نرک / नरक اور پہلوی زبان میں 'دوزخ' کہتے ہیں۔ اب دوزخ کی رعایت سے میرزا غالب کا شعر ملاحظہ کریں:
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
اگر جہنم کے بیان سے گھبرا گئے ہیں تو کچھ ذکر موسیقی کا ہوجائے۔ ہندوستان میں ایجاد ہونے والے سازوں میں سارنگی سب سے نمایاں ہے۔ لغت کے مطابق 'سارنگی چھاتی سے لگا کر بجایا جانے والا ساز ہے، جس میں لکڑی کے خول پر چار تانت کی تانیں اور عموماً تیرہ طربیں ہوتی ہیں، اسے تاروں پر کمانچہ پھیر کر بجایا جاتا ہے۔' اسے بجانے والا سارنگی ساز، سارنگی نواز اور سارنگیا کہلاتا ہے۔
قانون دان اور ماہر لسان احمد دین کے مطابق 'سارنگی' کو اپنے موجد میاں سارنگ سے نسبت ہے، سارنگ محمد شاہ رنگیلا کے دربار سے وابستہ نامور مغنی تھا۔ مگر فرہنگ آصفیہ کے مؤلف مولوی سید احمد دہلوی کی رائے اس باب میں کچھ مختلف ہے۔ وہ 'سارنگی' کی نسبت 'سارنگ' کی طرف کرنے کے بجائے بات اس کے برخلاف بیان کرتے ہیں۔
سید احمد دہلوی کے مطابق ' ہندوستان میں سارنگی ایسا باجا ہے کہ جس کا جواب کسی ملک میں ایجاد نہیں ہوا۔ اس کو 'اُجیّن' کے حکیم سارنگا نے ایجاد کیا تھا۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی ہے کہ حکیم موصوف کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جس طرح قدرت نے آدمی کے گلے سے ہر طرح کے نغمات پیدا کیے ہیں اسی طرح کا کوئی ساز ایجاد کیا جائے۔ چنانچہ اُس نے نصف دھڑ سے لے کر گلے تک کی شکل کا ایک ساز ایجاد کیا اور اُس کا نام 'سارنگی' رکھا یعنی انگ (بدن) کا سا۔
اسی ایجاد کی وجہ سے وہ سارنگا کہلانے لگا۔ اس سے پہلے اُس کا نام کچھ اور تھا۔ سارنگی میں اُس نے آدمی کے بدن کا ڈھانچا بنایا اور تانت اور تارکی وہ رگیں بنائیں جو آواز اور نغمات کو اندر باہر لاتی اور لے جاتی ہیں اور جن کے ذریعے سے گلے یا سینے میں آواز گونجتی اور چلتی پھرتی ہے۔
پہلے سارنگی میں تمام رگیں موجود تھیں جو آدمی کے بالائے ناف سے لیکر گلے تک ہیں، گویا یہ ساز علم تشریح کا ایک نمونہ تھا، لیکن اب چودہ یا سترہ طرب سے زیادہ نہیں ہوتیں۔' اب اس سارنگی کو 'عمیق حنفی' کے شعر میں ملاحظہ کریں
اس کی اک آواز سے شرمایا سنگیت
سارنگی کا سوز کیا، کیا سِتار کا ساز
لگے ہاتھوں 'سِتار' کے معنی پر بھی غور کرلیں کہ یہ بھی سارنگی کا ہم قبیلہ ساز ہے۔ آغاز میں اس ساز میں فقط تین تار ہوتے تھے جس کی نسبت سے اسے 'سہ تارہ' یعنی تین تاروں والا کہا گیا، بعد میں لفظ 'سہ تارہ' سکڑ اور سمٹ کر 'سِتار' رہ گیا۔