گھر میں آٹا دال نہ دلیا۔۔۔ باہر کھائیں نان نہاری حیرت ہے
گھر میں آٹا دال نہ دلیا۔۔۔ باہر کھائیں نان نہاری حیرت ہے
پیر 8 مارچ 2021 6:25
عبدالخالق بٹ
اصلاً نہاری عرف عام میں ایسے سالن کو کہتے تھے جو رات کو دم دیا اور صبح سویرے کھایا جائے (فوٹو: ٹوئٹر)
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
شعر شیخ ابراہیم ذوق کا ہے جس میں آنسوؤں کی فراوانی دریا کی روانی سے ہمکنار ہے۔ اس شعر میں ہماری دلچسپی بین السطور موجود ’آنسو‘ اور اس کی نسبت سے بہنے والے ’دریا‘ سے ہے جس کا موازنہ ’شبنم‘ سے کیا گیا ہے۔
لفظ ’آنسو‘ کی اصل سنسکرت کا ’اشرو‘ ہے جو پنجابی میں ’اتھرو‘ اور فارسی میں ’اشک‘ ہے۔ ہندی میں آنسو کو نیر (Neer) بھی کہتے ہیں۔ دیکھیں معروف شاعر ندا فاضلی کیا کہہ رہے ہیں:
سنسکرت میں نیر (Neer) پانی کو کہتے ہیں جو ہندی میں مجازاً آنسو ہوگیا ہے۔ پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’ر‘ اور حرف ’ل‘ اکثر صورتوں میں باہم بدل جاتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں اور اس ’نیر‘ کا عکس ’دریائے نیل‘ میں دیکھیں۔
ماہرین زبان کے مطابق ’نیل‘ قدیم مصری زبان کا لفظ ’ناایئور‘ ہے جس کے معنی ’دریا‘ کے ہیں۔ اب ’نیر‘ اور ’ناایئور‘ کے ساتھ عربی کے’نہر‘ پرغورکریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ تینوں الفاظ ’بہتے پانی‘ کا مشترک مفہوم لیے ہوئے ہیں۔ بہتے پانی کی رعایت سے بہتے آنسوؤں کو دریا اور نہر قرار دینے والوں میں منیر نیازی بھی شامل ہیں جو کہہ گئے ہیں:
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
فارسی میں ’اشک‘ کے معنی میں ’آنسو‘ کے علاوہ ’قطرہ‘ بھی شامل ہے، اور کیوں نہ ہو کہ اشک بھی تو قطرہ قطرہ گرتے پہلے لڑی میں ڈھلتے پھر جھڑی بن کر چھما چھم برسنے لگتے ہیں۔
فارسی نے اپنے مزاج کے مطابق ’اشک‘ کی رعایت سے بہت سی دل کش و دل نشین تراکیب وضع کی ہیں۔ مثلاً آنسو بہانا اگر ’اشک باری، اشک ریزی و اشک افشانی ہے‘ تو پھوٹ پھوٹ کر رونا ’اشکِ داودی‘ و ’اشکِ داوری‘ ہے۔
خون کے آنسو اشکِ خونیں و اشکِ آتشیں بھی ہیں اور اشکِ گرم اور اشک پیازی بھی۔ اس آخری ترکیب کو علامہ اقبال کے یہاں ملاحظہ کریں:
تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں پر کیا لذت اس رونے میں
جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا
اس سلسلے کی ایک ترکیب ’اشکِ کباب‘ ہے، جو پانی اور پگھلتی چربی کی اُن بوندوں کو کہتے ہیں جو آگ پر رکھنے کے بعد کباب سے ٹپکتی ہیں، تاہم شدت غم سے بہنے والے آنسو بھی مجازاً ’اشکِ کباب‘ کہلاتے ہیں۔ اب اس ترکیب کو درج ذیل آتش افروز ضرب المثل میں دیکھیں:
’اشک کباب باعثِ طغیانِ آتش است‘۔
خوشی کے بعض لمحات اور مسرت بھرے جذبات بھی آنسوؤں کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر جاری ہونے والے آنسو فارسی میں ’اشکِ شیریں، اشکِ شادی اور اشکِ طرب‘ کہلاتے ہیں اور برکھا رُت میں ’اشک سحاب‘ اور ’اشک ابر‘ بن جاتے ہیں۔
اب اس حوالے سے آخری بات اور وہ یہ کہ ’اشک‘ کو فارسی ہی میں ’سَرِشک‘ بھی کہتے ہیں۔ فارسی اور اردو شاعروں کے ہاں اس کا استعمال عام ملتا ہے۔ دیکھیں بھوپال کے ارشد صدیقی کیا کہہ رہے ہیں:
سرشکِ غم سمٹ کر دل کے ارمانوں کو لے ڈوبے
یہ صاحب خانہ اپنے ساتھ مہمانوں کو لے ڈوبے
آغاز میں ’شبنم‘ کا ذکر ہے۔ یہ لفظ ’شب‘ اور ’نم‘ سے مل کر بنا ہے اور معنی ہیں ’رات کی نمی‘۔ یہ پُرنم یا مرطوب شب میں گرنے والے پانی کے قطرے ہوتے ہیں جو ’شب‘ کی نسبت سے ’شبنم‘ کہلاتے ہیں۔
’شب‘ کے ذکر کے بعد ’روز‘ کی بات کرتے ہیں جو اردو میں ’دن‘ اور عربی میں ’نَہَار‘ ہے۔ ایک مدت تک ہم ’نہاری‘ اور ’نہار منہ‘ کو اسی ’نہار‘ سے متعلق سمجھتے رہے۔ وہ یوں کہ رات بھر پکنے والا یہ مرغوب ناشتہ نہار ہونے یا دن نکلنے پر کھایا جاتا ہے شاید اسی لیے ’نہاری‘ کہلاتا ہے۔ یہی کچھ معاملہ ’نہارمنہ‘ کا تھا کہ لیل کے جانے اور نہار آنے پر بندہ بیدار ہوتا ہے اور اس نہار کی نسبت سے ’نہارمنہ‘ کی حالت میں ہوتا ہے۔
تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ان دونوں لفظوں کا عربی کے ’نَہَار‘ سے کوئی تعلق نہیں کہ ’نہاری‘ اور ’نہار منہ‘ سنسکرت کے ’ناہار‘ سے متعلق ہیں۔ سنسکرت میں کھانا ’اہار‘ اور نہ کھانا ’ناہار‘ ہے۔ یہی ’ناہار‘ تخفیف کے بعد ’نہار‘ ہو گیا ہے۔ اس ’ناہار‘ کا فارسی مترادف ’ناشتا‘ ہے جو ’آشتا‘ یعنی کھانے کی ضد ہے۔
یوں تو ’نہاری‘ ایک مخصوص ڈش میں بدل چکی ہے جو کسی بھی وقت کھائی جاتی ہے مگر آغاز میں ایسا نہیں تھا۔ اصلاً نہاری عرف عام میں ایسے سالن کو کہتے تھے جو رات کو دم دیا اور صبح سویرے کھایا جائے اسی لیے اس کے مفہوم میں سری پائے بھی شامل ہیں۔
چوںکہ رات بھر بننے والا کھانا صبح صبح کھاتے تھے اور اس سے پہلے کچھ کھایا ہوا نہیں ہوتا تھا یوں اس نہ کھانے یعنی ’نہار‘ کی نسبت سے اس کو ’نہاری‘ کہا گیا۔ یہی کچھ معاملہ ’نہار منہ‘ کا ہے۔ اب ’نہاری‘ کی رعایت سے ’غلام محمد وامق‘ کا شعر ملاحظہ کریں: