سب سے کامیاب بولر لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے شاہ نواز دھانی رہے جنہوں نے 21 وکٹیں حاصل کیں۔ فوٹو: پی ایس ایل ٹوئٹر
فروری میں جب پی ایس ایل 6 کا آغاز ہوا تو جو ٹیمیں نسبتاً سب سے کمزور نظر آ رہی تھیں وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور ملتان سلطانز تھیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ کراچی میں ہونے والے میچز کو جب کورونا کی وجہ سے روکنا پڑا تو پانچ پانچ میچز کھیل کر کوئٹہ اور ملتان کی ٹیمیں دو دو پوائنٹس کے ساتھ پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے تھیں۔
جب ابوظہبی میں پی ایس ایل کا دوبارہ آغاز ہوا تو وہاں پر دونوں ٹیموں کے پاس دو راستے تھے کہ یا تو اس پوزیشن سے خود کو اٹھائیں اور عمدہ کارکردگی دکھا کر اپنا لوہا منوا لیں یا پھر پریشر میں آ کر پہلے جیسی بری کارکردگی کا تسلسل جاری رکھیں۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے دوسرے راستے پر ہی اکتفا کیا اور نہ صرف پلے آف سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم بنی بلکہ ٹورنامنٹ کے اختتام پر آخری نمبر پر آئی۔
ملتان سلطانز نے پہلا راستہ چنا اور شاندار پرفارمنس سے نہ صرف پہلی دفعہ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا بلکہ ٹائٹل بھی اپنے نام کر لیا۔ تو یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلطانز نے یہ معرکہ کیسے اتنے عمدہ طریقے سے سر کر لیا؟ کیونکہ کراچی میں ہونے والے میچز میں ان کی ٹیم کا کوئی کمبینیشن نہیں بن پا رہا تھا۔
سلطانز نے پچھلا سیزن شاندار کھیلا تھا اور اس بار تو محمد رضوان جو پاکستان ٹیم کے لیے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے کو کپتان بھی مقرر کیا گیا۔ مگر پھر بھی سلطانز پہلے کھیلے گئے پانچ میچز میں سے محض ایک میں ہی کامیابی حاصل کر پائے تھے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے جب ٹورنامنٹ میں وقفہ آیا تو سلطانز کی مینجمنٹ سر جوڑ کر بیٹھی اور گزشتہ میچز میں اپنی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی اور یہ دیکھا گیا کہ ان کو اپنی بولنگ لائن اپ میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیٹنگ پھر بھی بہتر پرفارم کر رہی تھی لیکن بولرز دباؤ میں آ کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے تھے۔
اب جہاں ایک طرف ان کے بولنگ کوچ اظہر محمود نے اپنے بولرز کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا وہاں انہوں نے دوبارہ ہونے والے منی ڈرافٹ میں زمبابوے کے دراز قد بولر مزا ربانی کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا۔
اس کے ساتھ ویسٹ انڈیز کے مڈل آرڈر پاور ہٹرز جوناتھن چارلس اور شیمرون ہٹمائر اور افغانستان کے رحمان اللہ گورباز کو بھی سکواڈ کا حصہ بنا لیا۔
ابوظہبی میچز کا آغاز ہوا۔ کراچی کنگز کے خلاف اپنے اس حصے کے پہلے میچ میں سلطانز نے رحمان اللہ گورباز اور شیمرون ہٹمائر کو موقع دیا مگر دونوں ہی ناکام ہوئے۔ دیگر بلے بازوں اور بولرز کی عمدہ کارکردگی کی بدولت سلطانز نے کنگز کے خلاف 176 رنز کے ہدف کا دفاع کرلیا۔ دوسرے میچ میں سلطانز نے زلمی کو باآسانی آٹھ وکٹوں سے شکست دی جس میں شاہنواز دھانی کی چار وکٹیں، اور محمد رضوان 82 اور صہیب مقصود کے 61 رنز شامل تھے۔
اس میچ میں رحمان اللہ گورباز کی جگہ سلطانز نے اپنے گزشتہ سیزن کے کپتان شان مسعود کو کھلایا اور سہیل خان کی جگہ عمران خان کو موقع دیا گیا ۔ سلطانز نے اپنے اس کمبی نیشن میں صرف شمیرون ہٹمائر کی جگہ جوناتھن چارلس کو کھلایا اور فائنل جیتنے تک اسی کمبی نیشن سے ہی کھیلے۔
قلندرز کو بھی سلطانز نے 80 رنز کے بھاری مارجن سے شکست دی۔ اگلے میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف ایک اچھے آغاز کے باوجود سلطانز کی ٹیم لڑکھڑا گئی اور 149 رنز کا ہدف ہی دے پائی جسے یونائیٹڈ نے باآسانی حاصل کر لیا۔ پوائنٹس ٹیبل پر دوسری پوزیشن پر ہونے کے بعد فائنل کے لیے پہلے کوالیفائر میں بھی ان کو اسلام آباد یونائیٹڈ کا ہی سامنا کرنا تھا۔
کرکٹ مبصرین کا خیال تھا کہ یونائیٹڈ جس عمدہ فارم میں نظر آ رہے تھے اور سلطانز کو ہرا بھی چکے تھے، اسی لیے یونائیٹڈ کو ہی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی پہلی ٹیم قرار دیا جا رہا تھا مگر سلطانز کچھ اور ہی سوچ رہے تھے ۔
انہوں نے اپنی عمدہ کارکردگی سے یونائیٹڈ کو ہرا کر کرکٹ پنڈتوں کے سب اندازے غلط ثابت کر دیے۔ اور اس طرح سلطانز کی ٹیم اس سیزن میں فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی پہلی ٹیم بنی۔
اس اہم میچ میں سلطانز نے ٹاس جیت کر پھر پہلے بیٹنگ کی حالانکہ اس سے پہلے میچ میں وہ یونائیٹڈ کے خلاف پہلے کھیلتے ہوئے ہار چکے تھے۔ سلطانز کا آغاز کوئی بہت اچھا نہیں تھا اور ایک موقع پر 61 پر ان کی تین وکٹیں گر چکی تھیں۔
ان کی بہت زیادہ لمبی بیٹنگ لائن اپ نہ ہونے کی وجہ سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ اس میچ میں بھی کوئی خاص سکور نہیں کرپائیں گے۔ مگر صہیب مقصود، جوناتھن چارلس اور خوشدل شاہ کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت سلطانز 180 رنز بنائے میں کامیاب ہوگئے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی لمبی بیٹنگ لائن کو دیکھتے ہوئے گو کہ یہ ہدف بھی اتنا بڑا نہیں لگ رہا تھا۔ مگر سلطانز نے عمدہ بولنگ کی بدولت یونائیٹڈ کو 149 پر آؤٹ کر کے 31 رنز سے میچ اپنے نام کر لیا ۔ ان کی طرف سے سہیل تنویر، مزاربانی ، عمران طاہر اور دھانی نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا ۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کی طرف سے عثمان خواجہ ہی 70 رنز بناسکے ۔
فائنل میں سلطانز کو پشاور زلمی کا مقابلہ کرنا تھا۔ جو کہ دفاعی چیمپیئن کراچی کنگز اور اس سیزن کی سب سے کامیاب ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچے تھے۔ زلمی کی دونوں فتوحات میں ان کے اوپنر حضرت اللہ زازئی اور ان کے باؤلرز کی عمدہ کارکردگی کا بہت اہم کردار تھا۔
زازائی جس طرح سے فارم میں تھے اور زلمی نے جس طرح سے یکے بعد دیگرے دو اہم ٹیموں کو ہرا کر ٹورنامنٹ سے باہر کیا تھا تو کرکٹ مبصرین ان کو ہی سلطانز کے مقابلے میں فیورٹ قرار دے رہے تھے۔ مگر جب فائنل کا آغاز ہوا تو زلمی کے کپتان وہاب ریاض نے ملتان سلطانز کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دے دی، کیونکہ زلمی نے اپنے دونوں پلے آف میچز بعد میں ہدف حاصل کر کے جیتے تھے۔
اس لیے وہ کافی پر اعتماد تھے کہ سلطانز جو بھی ہدف دیں گے ان کے بلے باز اسے بآسانی حاصل کر لیں گے۔ اس اہم میچ سے قبل زلمی کے بولر عمید آصف جو کہ کافی فارم میں تھے، بائیو سیکور ببل کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر باہر ہوگئے۔
ان کی جگہ ثمین گل کو موقع دیا گیا اور کپتان وہاب ریاض نے ان کو پہلا اوور کروانے کےلئے ہی گیند تھما دی۔ ثمین نے اپنے کپتان کو مایوس نہیں کیا اور بڑی عمدہ بولنگ کرائی۔ جس کی وجہ سے سلطانز کا آغاز قدرے محتاط تھا، وہ پہلے اوور میں ایک ہی رنز حاصل کر پائے۔ لیکن پھر شان مسعود اور محمد رضوان نے سکور کو آگے بڑھانا شروع کیا اور ٹیم کو ایک اچھا آغاز فراہم کر دیا ۔
اسی کی ہی بنیاد پر اگلے آنے والے بلے بازوں صہیب مقصود اور ریلی روسو نے رنز کے انبار لگا دیے۔ صہیب نے 35 گیندوں پر چھ چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے 65 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی۔ جبکہ ریلی روسو جو کہ چند گزشتہ میچز میں پرفارم نہیں کر پارہے تھے۔ انہوں نے 21 گیندوں پر 50 رنز بنائے۔ آخر میں خوشدل شاہ کے 5 گیندوں پر 15 رنز سے سلطانز نے زلمی کو 207 رنز کا ایک پہاڑ جیسا ہدف دیا۔
گو کہ زلمی والے پھر بھی پر اعتماد تھے کہ زازئی کی عمدہ فارم اور اچھی بیٹنگ پچ کی وجہ سے وہ یہ معرکہ سر کے ریکارڈ بنا دیں گے ۔ سلطانز کی عمدہ بولنگ کی وجہ سے پاور پلے کے چار اوورز میں کامران اکمل ہی زیادہ سٹرائیک پر رہے اور اچھا آغاز فراہم کیا ۔
لیکن چھٹے اوور میں جب زازئی سامنے آئے تو انہوں نے آتے ہی مزاربانی کو اپنے فیورٹ ایریا لیگ سائیڈ پر ایک شاندار چھکا رسید کر دیا۔ جس سے زلمی کے کھلاڑیوں کے چہرے کھل اٹھے کہ اب بس مار دھاڑ کا آغاز ہو گیا ہے۔
مگر مزاربانی نے اگلی ہی گیند آف سٹمپ کے باہر بہت دھیمی رفتار میں کروا دی جس کو کوور میں کھیلنے کی کوشش میں زازئی، شان مسعود کے ہاتھوں میں کیچ دے بیٹھے۔
زازئی کی وکٹ گرنے پر زلمی کے ڈگ آؤٹ میں اداسی چھا گئی اور سلطانز کی خوشی دیدنی تھی ۔ کیونکہ ان کو اس وکٹ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ اس وقت زلمی کا سکور 42 تھا۔ سلطانز کی خوشی مزید دگنی تب ہوئی جب اگلے ہی اوور میں عمران خان کی اندر آتی ہوئی گیند کو کامران اکمل کٹ کرنے کی کوشش میں بولڈ ہو گئے۔
اس کے بعد 58 کے سکور پر جوناتھن ویلز جنھوں نے پلے آف کے دوسرے کوالیفائر میں اسلام آباد کے خلاف عمدہ اننگز کھیلی تھی رن آؤٹ ہو کر واپس لوٹ گئے۔ شعیب ملک بھی عمران خان کی گیند پر آؤٹ ہوئے مگر نو بال کی وجہ سے ان کو ایک موقع مل گیا۔ انہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 28 گیندوں پر 48 رنز بنائے۔ اور وقفہ میں اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ اپنی ٹیم کو جتوا کر ہی آئیں گے۔ مگر آتے ہی وہ سہیل تنویر کو ایک پل شارٹ مارنے کی کوشش میں باؤنڈری پر کھڑے عمران طاہر کو کیچ دے بیٹھے ۔ تب زلمی کا سکور 137 تھا ۔ اس مرحلے پر شرفین ردرفورڈ کریز پر آئے۔
یہاں پر محمد رضوان نے عمدہ کپتانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سینئر باؤلر عمران طاہر کو بلایا۔ حالانکہ وہ اپنے پچھلے اوور میں 21 رنز دے چکے تھے۔ مگر انہوں نے آتے ہی ردرفورڈ کو ایک اونچا شارٹ کھیلنے کی کوشش میں آؤٹ کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ بعد میں آنے والے دو بلے بازوں وہاب ریاض اور محمد عمران کو بھی پویلین کی راہ دکھائی۔ جس کے بعد سلطانز کی جیت کی محض رسمی کاروائی پوری ہوئی۔
پشاور زلمی کی ٹیم و وکٹ کے نقصان پر صرف 159 رنز بنا سکی اور پی ایس ایل کا یہ فائنل سلطانز نے 47 رنز سے جیت لیا۔
ملتان سلطانز کی اس جیت میں ان کی مینجمنٹ جس میں اینڈی فلاور ، اظہر محمود اور مشتاق احمد جیسے منجھے ہوئے کوچز موجود تھے، ان کا بہت کردار تھا۔ کیونکہ انہوں نے ڈیٹا انیلیسز کو بنیاد بناتے ہوئے ایک لاجواب ٹیم کمبی نیشن ترتیب دیا۔ بلکہ میچ کے دوران بھی مختلف نمبرز کی مدد سے انہوں نے کپتان محمد رضوان تک اپنے پیغامات پہنچائے۔
اس کے ساتھ اس جیت کا سہرا سلطانز کے کپتان محمد رضوان کے سر بھی جاتا ہے کہ انہوں نے ناصرف اپنی انفرادی کارکردگی بلکہ بطور کپتان بھی عمدہ کارکردگی سے اہم مواقع پر درست فیصلوں سے ٹیم کو چیمپئن بنوا دیا ۔ محمد رضوان کی تعریف کرنا اس لیے بھی بنتا ہے کہ پچھلے سیزن میں جب وہ کراچی کنگز کا حصہ تھے تو ان کو کسی میچ میں نہیں کھلایا گیا اور اس حوالے سے کنگز کے کپتان عماد وسیم نے کہا تھا کہ محمد رضوان ان کی ٹیم میں فٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔
ایک ایسا کھلاڑی جو ایک ٹیم میں فٹ ہی نہیں ہوپا رہا تھا ۔ وہ جب دوسری ٹیم میں بطور کپتان آتا ہے تو اس ٹیم کو نیچے سے اٹھا کر چیمپئن بنوادیتا ہے۔ وہ کھلاڑی بھی کسی چیمپئن سے کم نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ملتان سلطانز کے ہر کھلاڑی نے کسی نہ کسی میچ میں پرفارم کیا۔ وہ کسی ایک کھلاڑی پر انحصار نہیں کر رہے تھے، یہ ایک اچھی ٹیم کی نشانی ہوتی ہے ۔ بیٹنگ میں تمام بلے بازوں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ شان مسعود ہوں یا محمد رضوان ، ریلی روسو ہوں یا جوناتھن چارلس یا پھر خوشدل شاہ، سب نے ہی رنز بنائے۔
صہیب مقصود تو لاجواب رہے ۔ ان کی اسی لاجواب کارکردگی کی وجہ سے ان کو اس سیزن کا بہترین بلے باز اور پلیر آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا گیا ۔ حیدر علی کی بائیو سیکیور ببل کی خلاف ورزی صہیب مقصود کے لیے مفید ثابت ہوئی کیونکہ ان کو پاکستان کے دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے سکواڈ میں حیدر علی کی جگہ پر شامل کر لیا گیا ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔
اسی طرح سلطانز کے بولرز نے بھی ٹیم کی جیت میں اپنی عمدہ کارکردگی سے اہم کردار ادا کیا۔ عمران طاہر، عمران خان، سہیل تنویر، مزاربانی نے جب جب ٹیم کو ضرورت پڑی تب تب وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن سب سے کامیاب بولر لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے شاہ نواز دھانی تھے۔ جنہوں نے پورے ٹورنامنٹ میں اپنی شاندار کارکردگی دکھائی اور 21 وکٹیں لے کر سیزن کے بیسٹ باولر قرار پائے۔
ٹورنامنٹ کے آغاز میں لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کی عمدہ فارم اور دوسرے حصے میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی تسلسل سے عمدہ کارکردگی اور پشاور زلمی کی اٹھان کے باوجود ملتان سلطانز کا یہ ٹائٹل جیتنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر اچھی منصوبہ بندی اور محنت کو تجربہ کار اور نئے کھلاڑیوں کے ساتھ ملا دیا جائے تو وہ آخر سے اوپر آکر بھی چیمپئن بن سکتے ہیں۔ بس ٹیم کا نام ملتان سلطانز ہونا چاہیے اور اس ٹیم کے کپتان کا نام محمد رضوان ہونا چاہیے۔