Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسائل ہی مسائل، لاہور کو سنبھالنا کسی کے بس کی بات کیوں نہیں رہی؟

اردو نیوز نے اس اجلاس کی دستاویزات حاصل کر لی ہیں جن میں لاہور کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی حتمی سفارشات تیار کی گئی تھیں اور جن پر اب وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
منٹس آف میٹنگ میں درج تقسیم کے نئے خاکے کے مطابق ’لاہور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک حصے کا نام ہوگا ضلع لاہور شہر جبکہ دوسرے کا ضلع لاہور صدر۔‘
لاہور شہر میں پرانے لاہور سمیت ایسے علاقوں کو شامل کیا گیا ہے جو اس وقت نئے لاہور میں تصور ہوتے جب لاہور کی آبادی پھیلنا شروع ہوئی جیسا کہ ماڈل ٹاؤن، شاہدرہ اور ٹھوکر نیاز بیگ۔

 

موجود حکومت کی جانب سے راوی کنارے بسائے جانے والے متوقع شہر کو بھی اسی حصے میں رکھا گیا ہے جبکہ لاہور صدر میں کینٹ، شالیمار، فیروزوالا، کوٹ عبدالمالک اور ہربنس پورہ کے علاقے شامل ہوں گے۔
سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ’لاہور کی آبادی 1کروڑ 22 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا ایک ڈپٹی کمشنر اور پانچ اسسٹنٹ کمشنرز ہیں۔‘
لاہور کے موجودہ انتظامی افسران اس تقسیم سے متعلق کیا سوچتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اسسٹنٹ کمشنر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’لاہور کی آبادی کی اس وقت جو حالت ہے اس شہر کو سنبھالنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔‘
’30 لاکھ افراد پر ایک اسسٹنٹ کمشنر ہے۔ آپ جو مرضی اس میں ڈالتے جائیں یہ عمرو عیار کی زنبیل بن چکا ہے۔‘
 ان کے مطابق ’انتظامی طور پر لاہور کو جتنی جلدی تقسیم کیا جائے اتنا ہی لوگوں کے مسائل میں جلدی کمی واقع ہوگی۔ گذشتہ دور حکومت میں شہر کو کراچی کی طرز پر چار حصوں میں تقسیم کرنے پر کام کیا گیا تھا لیکن اس میں سیاسی مصلحتیں آڑے آگئیں۔‘

ایک اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق ’انتظامی طور پر لاہور کو جتنی جلدی تقسیم کیا جائے اتنا ہی لوگوں کے مسائل میں جلدی کمی واقع ہوگی‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اگر لاہور کی انتظامی صورت حال اتنی مخدوش ہے تو پھر مسلم لیگ ن کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان اعظمیٰ بخاری نے بتایا کہ ’ہمارا اعتراض ان کی نااہلی پر ہے۔ پہلے یہ پنجاب تقسیم کرنے چلے تھے اب لاہور کی باری ہے۔ سب نے دیکھ لیا اُدھر ان کا کیا حشر ہوا۔‘
’لاہور میں 85 فیصد ووٹ مسلم لیگ ن کے ہیں، ہم سے مشاورت کیے بغیر یہ اس طرح کے فیصلے کر رہے ہیں جن کے بوجھ تلے یہ خود ہی دب جائیں گے۔ لاہور کا کوڑا تو ان سے سنبھالا نہیں جاتا اور انہوں نے کرنا کیا ہے؟‘
خیال رہے کہ اردو نیوز کو دستیاب لاہور کی تقسیم سے متعلق میٹنگ میں صرف تحریک انصاف کی سیاسی قیادت سے مشاورت کی گئی جس میں سینیٹر اعجاز چوہدری کا نام بھی درج ہے۔ اس اجلاس میں کسی اور سیاسی جماعت سے مشاورت سے متعلق کچھ درج نہیں۔

شیئر: