سعودی عرب کے جوف ریجن میں تین کروڑ 70 لاکھ برس قبل معدوم ہوجانے والی ایک وہیل کی باقیات دریافت ہوئی ہیں جس نے خطے کے قدیم سمندری ماحول سے جڑے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
29 جون کو عام کی گئی معلومات میں ایک ایسے قبرستان کا ذکر ہے جس میں وہیل کی ہڈیاں پائی گئی ہیں۔ اس تحقیق میں آٹھ مقامی اور غیر ملکی ماہرین نے حصہ لیا جو ارضیات اور قدیم حیاتیات کے شعبوں سے متعلق ہیں۔
مزید پڑھیں
-
تبوک میں فلک بوس پہاڑ، تاریخی مقامات اور سحر آفرین مناظرNode ID: 580356
-
مکہ مکرمہ میں دوسرا انڈسٹریل سٹی ریکارڈ وقت میں تیارNode ID: 580451
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق دریافت کا سہرا سعودی جیولوجیکل سروے (ایس جی ایس) کی ٹیم کے سر ہے اور یہ سائنسی تحقیقات میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس نایاب وہیل کی باقیات رتیلے اور پتھریلے پہاڑوں پر مشتمل اس علاقے میں پائی گئیں جس کا تعلق پرائیوبونئین عہد سے ہے۔ اسے ’اپرایوسین ایرا‘ یعنی عہد جدید کے آغاز کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے جو کہ لگ بھگ تین کروڑ 70 لاکھ برس قدیم ہے۔
حال ہی میں ہونے والی یہ دریافت سعودی عرب کے شمال مغربی علاقوں کی قدیم سمندری حیات کے بارے میں اہم معلومات کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔
سعودی جیولوجیکل سروے کے تکنیکی مشیر، امریکی ماہر ارضیات ایاد زلموت نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جانور وہیل کی قدیم ترین قسم سے تعلق رکھتا ہے اور اسے ناپید ہوجانے والی اقسام کے درجے میں رکھا گیا ہے۔‘
دریافت ہونے والی ان باقیات میں ایک بڑی ہڈی ہے جو دم سے لے کر سینے کے اوپری حصے تک محفوظ ہے، اس میں گولائی والی پیشانی اور کندھوں کے کناروں کے علاوہ کھوپڑی اور نچلے جبڑے کی پہچان بھی واضح ہے۔
زلموت نے بتایا کہ ’یہ نئی وہیل ان وہیلوں سے ملتی جلتی ہے جو 1902 میں اور بعد ازاں 1991 میں مصر کے مغربی صحرا سے ملی تھیں لیکن یہ نئے دریافت ہونے والے فوسلز پہلے کی نسبت زیادہ مکمل ہیں جو اس نوع کی وہیل کے بارے میں زیادہ معلومات دے سکتے ہیں۔ یہ وہیل پرانی وہیلز کی نسبت کافی چھوٹی ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈروڈن اٹروکس نامی وہیل کی جسامت کے ایک تہائی کے برابر ہے۔
یہ چھوٹی جسامت کی حامل مکمل طورپر پر آبی وہیل ہے جس کی لمبائی لگ بھگ تین میٹر ہے ، اور اس کی دُم نسبتاً طویل ہو سکتی ہے اور اس کے جسم کی حرکت سانپ کے جیسی ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس وہیل کا وزن 500 سے 600 کلوگرام ہو سکتا ہے۔ امریکی ماہر ارضیات زلموت کے مطابق اس کے وزن کا اندازہ دوسری دریافت ہونے والی وہیلز کی جسامت کی مدد سے لگایا گیا ہے۔ یہ باقیات الرشرشیہ نامی چٹانی علاقے سے دریافت ہوئی ہیں جو اردن کی سرحد کے قریب سعودی عرب کا شمال مغربی علاقہ ہے۔
امریکی ماہر ارضیات زلموت کا کہنا ہے کہ یہ وہیل جس علاقے سے دریافت ہوئی ہے، وہ بارانی پانی کے بڑے ذخیروں کے لیے مشہور ہے۔ ان کے بقول وہیل کی یہ نوع مختلف قسم کے موسمیاتی حالات کے تحت تبدیلیوں کےعمل سے گزرتی رہی اور بالآخر معدومی کا شکار ہو گئی۔
زلموت کے مطابق ’یہ سعودی عرب کی حدود میں دریافت ہونے والی پہلی ایسی ایوسین وہیل ہے جس کی کی کھوپڑی زیادہ تر سلامت ہے۔‘
’ہم سعودی جیولوجیکل سروے کے نئے سی ای او عبداللہ الشمرانی کے بے حد ممنون ہیں کہ انہوں نے سعودی عرب کی قدیم تاریخ کے مطالعے کے لیے سازگار ماحول قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔‘
اكتشاف تاريخي لبقايا حوت منقرض قبل ٣٧ مليون سنة شمال غرب السعودية ..#حوت_منطقة_الجوف_التاريخي pic.twitter.com/IOYrLeRXwW
— هيئة ا ﻟ ﻤ ﺴ ﺎ ﺣ ﺔ الجيولوجية السعودية (@SgsOrgSa) June 27, 2021