Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کا قلعہ نو کا محاصرہ ’دکانیں بند جبکہ گلیوں میں کم لوگ ہیں‘

افغان فوج اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی کے نتیجے میں کئی شہری نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے شمالی صوبہ بادغیس میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی کے باوجود طالبان جنگجو صوبائی دارالحکومت قلعہ نو میں آزاد گھوم رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یکم مئی کے بعد سے قلعہ نو پہلا صوبائی دارالحکومت ہے جس پر بدھ کو طالبان نے قبضہ کرلیا تھا، تاہم افغان کمانڈوز کئی سرکاری عمارتیں طالبان کے قبضے سے چھڑوانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ افغان فوج کی اہلیت کے حوالے سے بھی خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ امریکی فوج کی فضائی طاقت کے بغیر افغان فوج طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق ’امریکی افواج کا افغانستان سے نوے فیصد انخلا مکمل ہو گیا ہے۔‘
گذشتہ روز صوبہ بادغیس کے دارالحکومت قلعہ نو میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان لڑائی کا سلسلہ 24 گھنٹے سے زائد جاری رہا جس کے بعد جمعرات کو بھی رہائشی اپنے گھروں تک ہی محصور رہے یا پھر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
قلعہ نو کے رہائشی عزیز توکلی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’طالبان ابھی بھی شہر میں موجود ہیں، انہیں اپنے موٹر سائیکلوں پر گلیوں میں گھومتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔‘
عزیز توکلی کے مطابق ’شہر کے 75 ہزار رہائشیوں میں سے اکثر قریبی اضلاع یا صوبہ ہرات کو نقل مکانی کرگئے ہیں۔‘
’دکانیں بند ہیں اور گلیوں میں کم ہی لوگ دکھائی دیتے ہیں۔‘
بادغیس کی صوبائی کونسل کے رکن ضیا گل حبیبی کے مطابق ’طالبان کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے شہر کا محاصرہ کیا۔‘
’تمام اضلاع ان (طالبان) کے قبضے میں ہیں اور لوگ شدید خوف میں مبتلا ہیں۔‘

طالبان صوبائی دارالحکومت قلعہ نو پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’تمام دکانیں اور سرکاری ادارے بند ہیں اور لڑائی کی خبریں ابھی بھی موصول ہو رہی ہیں۔‘
قلعہ نو سے سماجی کارکن پرسیلا ہیروئی نے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام خواتین بالخصوص سماجی کارکنان کے لیے ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔‘
’اگر طالبان کا شہر میں رہنے کا ارادہ ہے تو ہم کام نہیں کر سکیں گے۔‘
مئی کے مہینے سے طالبان شمالی افغانستان کے اکثر اضلاع کا قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔ صوبہ ہرات میں بھی دو اضلاع طالبان کے قبضے میں ہیں۔
بدھ کی صبح طالبان نے صوبہ بادغیس کے دارالحکومت قلعہ نو میں پولیس ہیڈ کوارٹرز سمیت دیگر سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
گورنر حسام الدین کے مطابق ’طالبان نے قلعہ نو شہر پر تین اطراف سے حملہ کیا تھا جس کے بعد وہ شہر کے کچھ حصوں میں داخل ہو گئے تھے، تاہم طالبان کو افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘
صوبائی حکام کے مطابق ’طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے فضائی حملوں کے علاوہ سپیشل فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔‘

صوبہ بادغیس میں طالبان اور افغان فوج کے درمیان کئی گھنٹے لڑائی جاری رہی (فوٹو: اے ایف پی)

وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر  بتایا کہ ’طالبان نے افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے دفتر اور  پولیس ہیڈ کوارٹرز کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، گورنر کے دفتر پر قبضہ کر ہی رہے تھے کہ سپیشل فورسز نے انہیں شکست دے دی۔‘
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریسیا گروسمن کا کہنا ہے کہ ’شمالی علاقوں میں طالبان زبردستی لوگوں کو بے گھر کر ہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کی قیادت اپنے جنجگوؤں کو اس قسم کی زیادتیوں سے روکنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن اس حوالے سے کسی قسم کی رضامندی کا اظہار نہیں کیا گیا۔‘

شیئر: