Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسٹریلیا میں بغیر درد کے شوگر چیک کرنے کا طریقہ ایجاد

پول دستور کے مطابق اس نئے ٹیسٹ کے لیے گلوکوز کا پتہ لگانے والے ایک انزائم کو ایک ٹرانزسٹر میں ڈالتے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
آسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک طریقہ نکالا ہے جس سے وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے لعاب سے خون میں گلوکوز چیک کر سکیں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کو اپنے خون میں شوگر لیول مناسب سطح پر رکھنے کے لیے دن میں کئی بار ایک سوئی اپنی انگلی میں چبھونی پڑتی ہے تاکہ وہاں سے نکلنے والے خون کے قطرے کو ایک سٹرپ پر رکھ کر شوگر لیول چیک کیا جا سکے۔  
اس عمل سے ظاہر ہے ذیابیطس کے مریضوں کو نکلیف بھی پہنچتی ہے، جس سے بچنے کے لیے کچھ مریض دن میں کم ٹیسٹ کرتے ہیں۔  
تاہم آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو کاسل میں فزکس کے پروفیسر پال دستور کے مطابق اس نئے ٹیسٹ کے لیے گلوکوز کا پتہ لگانے والے ایک انزائم کو ایک ٹرانزسٹر میں ڈالتے ہیں۔ یہ ٹرانسزسٹر پھر خون میں گلوکوز کی سطح کے بارے میں بتاتا ہے۔
پول دستور نے بتایا کہ ٹرانسٹر کے اندر موجود مٹیریل الیکٹرانک ہوتا ہے جس میں انک ہوتی ہے اسی لیے یہ ٹیسٹ کم قیمت میں پرنٹ کر کے بھی کیا جا سکتا ہے۔
’(یہ ٹیسٹ) واقعی درد کے بغیر اور کم قیمت میں گلوکوز ٹیسٹنگ کا موقع فراہم کر سکتا ہے اور امید ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس کے بہتر نتائج ہوں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ نیا ٹیسٹ اتفاق سے بنا جب ان کی ٹیم سولر سیلز پر کام کر رہی تھی۔

پول دستور نے بتایا کہ ٹرانسٹر کے اندر موجود مٹیریل الیکٹرانک ہوتا ہے جس میں انک ہوتی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

آسٹریلیوی حکومت نے اس پراجیکٹ کے لیے 47 لاکھ امریکہ ڈالر یا 63 لاکھ آسٹریلیوی ڈالر رکھے ہیں تاکہ کلینیکل ٹرائلز کی منظوری کی صورت میں ٹیسٹنگ کٹس بنانے کے لیے ایک جگہ بنائی جا سکے۔
پول دستور نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کو کورونا وائرس، الرجی، ہارمون اور کینسر کا ٹیسٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نیوکاسل یونیورسٹی پہلے ہی سے ہارورڈ یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے۔

شیئر: