Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہما

  مقتدرہ  قوتیں شورشوں سے نپٹنے میں مصروف عمل ہیں ،   ماضی میں کی گئی غلطیوں سے مکمل اجتناب ہی اس ملک کو مستحکم  و  مضبوط بنا سکتا ہے 

محمد مبشر انوار
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بالخصوص چانکیہ سیاست کے پیرو کاروں میں یہ چلن  تو انتہائی عام ہے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کے  مصداق جس شخص کے ساتھ چلتے ہیں،اسی کو    اتنا زیادہ بانس پر چڑھاتے ہیں کہ  خدا کی پناہ  اور بوقت آزمائش اسی شخص کو  سولی پر چڑھا کر کہتے ہیں کہ چڑھ جا بچہ سولی،خیر ہوگا۔   مراد ہر  دوسرا شخص اپنے  مفادات کے تحفظ میں  دل و جان سے مصروف ہے  اور کسی نا گہانی صورتحال میں نہ کوئی  شرافت،نہ اصول اور  نہ  ہی اقداریاد  رہتی ہیں،   فقط اتنا یقین ہی کافی ہے کہ  اگلا لمحہ زوال ہے  تو پنچھی چڑھتے  سورج کی طرف اڑان بھر جاتے ہیں۔  یہ  سب  طوفان بدتمیزی  در حقیقت نظریاتی سیاست کے  شدید فقدان کا  شاخسانہ ہے جس نے  عالم  اسلام کے جمہوری ممالک کی  فہرست میں  وطن عزیز کو   اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے   اور  اس طرح ملکی تعمیر و  ترقی بری طرح  متاثر ہو رہی ہے، جس کا کسی کو    احساس تک نہیں ۔ سی پیک جیسے   بڑے منصوبے بھی چین جیسے  دوستوں کی  مرہون منت تو ہیں مگر  وہ بھی براہ راست  ان کی نگرانی میں تکمیل پار ہے ہیں۔  علاوہ ازیں اس کا سب سے  زیادہ فائدہ بھی  یقیناچین کے صنعت کاروں کو   تو ہونا ہی ہے لیکن اس پر  اٹھنے والے تمام تر اخراجات پاکستان کے کھاتے میں  بطور ’’قرضہ‘‘ڈالے جا رہے ہیں  لہذا چین  دوست ہونے کے  باوجود کسی بھی  طرح اپنے مفادات سے صرف نظر نہیں کر رہا ۔  یہ  ایک چھوٹی سی مثال ہے  جبکہ  اندرون ملک  جو  سیاسی صورتحال ہے   اس کے پیش نظر یہ حقیقت بھی  عیاں ہے کہ کوئی وقت جاتا ہے  اور پانامہ کا  محفوظ شدہ  فیصلہ منظر عام پر آ جائے گا ،فیصلہ کیا ہو گا، اس سے قطع نظر حکومتی ایوانوں میں جو  ہلچل مچی ہے،  اس نے پورے منظر نامے کو   دھندلا رکھا ہے ۔حکومت کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا،کس کی قسمت  یاوری کرے گی،کون  مسند اقتدار تک  رسائی حاصل کرے گا،فی الوقت کچھ بھی کہنا ممکن نہیں لیکن اس کھینچا تانی کی  منظر کشی بالکل واضح ہے   اور  سیاست کے سینے میں دل  نہ  ہونے والی صورتحال  بڑی حد تک عیاں ہے کہ  شریف  خاندان کا’’اتفاق‘‘سیاست نے بری طرح متاثر کر دیا ہے۔کل تک  بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کی یکجان  و دو  قالب والی مثال ہر چند کہیں ہے مگر نہیں ہے۔  ایک طرف  نوازشریف  خاندان الگ اپنا لائحہ عمل  ترتیب دے رہا ہے  تو دوسری طرف شہباز شریف خاندان کا  سیاسی قبلہ اندرون خانہ مختلف سمت پر گامزن ہے۔   اختلافات ہیں بھی اور نہیں بھی کی عجیب صورتحال سے  دو چار ہیں کہ جب تک  میاں نواز شریف سیاسی افق پر موجود ہیں ،کسی دوسرے کی دال گلنا ممکن نہیں  تو دوسری طرف میاں نواز شریف کو  منظر سے ہٹانا بھی کار  وارد  نظر آ رہا ہے۔ پارٹی کے  اندر  میاں نواز شریف مخالف قوتیں،بظاہر تو میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں مگر  اندرون خانہ سب کی  امیدیں عدالت عظمیٰ سے  وابستہ ہیں کہ کسی طرح عدالت عظمیٰ میاں نوازشریف کو پانامہ مقدمے میں سیاسی افق سے نکال باہر کرے تا کہ ان کی  امیدیں پوری ہوں۔ جانشینی کے حوالے سے گھمسان کا  رن پڑنے کا شدید ترین امکان ہے کہ  سیاسی  وراثت (موروثیت کے حوالے سے) یقینی طور پر مریم نواز صاحبہ کی  ہوتی اگر ان کا    دامن بہت سے  مسائل میں  نہ  الجھا ہوتااور جس  طرح  انہیں غیر محسوس  انداز میں پارٹی کے  اندر متعارف کیا گیا تھا،یہ  اظہر من الشمس تھا کہ  میاں  نواز شریف کے  عدم موجودگی میں  صرف  مریم نواز شریف ہی پارٹی کی قیادت کریں گی۔   پانامہ کے حوالے سے  میاں شہباز شریف خاندان کے   بیانات اور  عدم دلچسپی اس کا   بین ثبوت ہے کہ  اب  میاں شہباز شریف  خاندان  صرف  قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں بلکہ   وہ  اقتدار میں براہ راست شمولیت چاہتے ہیں،اس حوالے سے  میاں حمزہ شہباز نے پنجاب میں مختلف ورکرز کنونشن منعقد کروا کر اپنی سیاسی طاقت کا عملی  مظاہرہ بھی کیا ہے لیکن ابھی بھی یہ  کلیتاً واضح نہیں کہ  میاں نوازشریف کے  ذہن نارسا میں اس حوالے سے کیا منصوبہ ہے  یا   وہ اپنی جانشینی کس کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ  میاں نواز شریف کے فیصلوں سے بالعموم کسی کو  آگاہی نہیں ہوتی اور  ان کے فیصلے اکثریت کو  ششدر کر دیتے ہیں ، اسی طرح  موجودہ  صورتحال میں کسی قسم کی  پیشگوئی کرنا بھی ممکن نہیں کہ  وہ کس کو جانشین  مقرر کرتے ہیں۔ 
 
لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اگر  موجودہ  صورتحال میں (جہاں مریم نواز شریف  اور خود  نوازشریف کی اہلیت کسی بھی  صورت متاثر ہوتی ہے ) جانشینی کا   تقرر کرنا پڑا  تو یقینی طور پر قرعہ فال میاں شہباز شریف  خاندان کے نام ہرگز نہیں نکلے گا کہ  اعتماد کا      عنصر مختلف  اوقات میں بری طرح متاثر ہوا ہے گو کہ  میاں شہباز شریف آج بھی بڑے بھائی کا  دم بھرتے ہیں لیکن اب معاملات پر ان کی گرفت اتنی  مضبوط نہیں رہی کہ  وہ سب کو   میاں نوازشریف کی قیادت پر قائل و آمادہ کر لیں۔  اعتماد کی یہ  فضا  طرفین سے خراب ہوئی ہے  اور  اس کی  وجہ  بظاہر حق تلفی ہی نظر آتی ہے جیسا کہ  میاں حمزہ شہباز کے بیانات سے ظاہر ہے کہ  ہر  دفعہ قربانی شہباز خاندان ہی کیوں دے؟ایسے کسی بھی بیان کے بعد یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ  میاں نوازشریف اپنے بھائی اور بھتیجے پر اعتماد کرتے ہوئے ،خواہ   وقتی طور پر ہی سہی،اقتدار  ان کے حوالے کریں۔ میاں صاحب کی یقینی خواہش ہو گی کہ  بالفرض اگر انہیں سنگھاسن اقتدار سے  اترنا بھی پڑے تو کسی ایسے  مرنجاں مرنج کو  اپنی جگہ بٹھایا جائے،جس سے  بعد ازاں بآسانی اقتدار   واپس لیا جا سکے، اس کی مثال ماضی میں موجود بھی رہی ہے ، جب  میر ظفر اللہ جمالی کی جگہ شوکت عزیز کو    وزیراعظم بنانا مقصود تھا    یا جب  میاں شہباز شریف قانونی طور پر  وزیر اعلیٰ  نہیں بن سکتے تھے،   تب دوست محمد کھوسہ کو   عارضی  طور پر وزیراعلیٰ کا   منصب دیا گیا تھا۔ ماضی کی روایات کو  سامنے رکھیں  تو یقینی طور پر یہی نظر آ رہا ہے کہ  میاں  نواز شریف کسی صورت بھی ایسی شخصیت کو   اقتدار کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیں گے جس کی ’’خو‘‘ میں ’’وفاداری‘‘ کا   عنصر موجود   نہ ہو یا ’’بغاوت‘‘ کے  جرثومے  موجود ہوںیاجس کا   سیاسی ’’قد کاٹھ‘‘زیادہ ہو۔  قومی اسمبلی میں بغور دیکھا جائے  تو ایسی  قد آور شخصیات کم ہی نظر آتی ہیں،جن کے  نام قرعہ فال نکلنے کے امیدیں  نہ  ہونے کے برابر ہوں  جبکہ ایسی شخصیات کی  تعداد   خاصی زیادہ ہے جو   نہ  صرف   وفادار ہیں بلکہ ان کی  سوچ اور  اٹھان فقط اتنی ہی ہے جتنی فی الوقت  میاں نوازشریف صاحب کی  ضرورت ہے،اس صورتحال میں عین ممکن ہے کہ  میاں صاحب کے لئے فیصلہ کرنا بھی دشوار ہو جائے کہ آیا اتنے  وفاداروں میں کس کو یہ  اعزاز بخشا جائے کہ  وہ  ان کا    وقتی طور پر متبادل بن سکے ۔
 
 مقتدرہ  قوتوں کی  طرف دیکھیں  تو یہ حقیقت بھی نوشتہ دیوار ہے کہ  اس    مرتبہ مقتدرہ  اقتدار کے ایوانوں میں   ہونے والی ہلچل سے بظاہر لا تعلق دکھائی دے  رہی ہے   اور  اس کی نظریں مکمل طور پر اندرونی و  بیرونی شورشوں اور   سازشوں پر مرتکز ہیں۔  مقتدرہ  قوتیں پوری جانفشانی اور  قوت کے ساتھ ان شورشوں سے نپٹنے میں مصروف عمل ہیں اور کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتی کہ   ماضی میں کی گئی غلطیوں سے مکمل اجتناب ہی اس ملک کو مستحکم  و  مضبوط بنا سکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ   اقتدار کے  ایوانوں میں   ارباب اختیار بھی اپنی ذمہ داریوں کو  محسوس کرتے ہوئے اداروں کے ساتھ باہمی  ربط اور  تال میل کو  موثر  بناتے ہوئے شورشیں کرنے  والوں کے خلاف مضبوط   دیوار  بنیں،ان مٹھی بھر  شر پسندوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں لیکن  افسوس اس بات کا ہے کہ  اس     وقت ادارے اپنی غلطیوں کو   سدھارنے کی سعی میں  مصروف ہیں  تو سیاستدانوں کی کج فہمی  اس کے آڑے آ رہی ہے۔ 
 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں