Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ دن بھی دیکھنا تھے

فقط ایک مقابلے کی خاطر ، اسٹیڈیم سے  متصلہ عبادت گاہوں کو   جبراً   سیکیورٹی کی  غرض سے  بند کرنا کہاں کی  دانشمندی ہے؟
 
محمد مبشر انوار
 
وٹس ایپ پر دیرینہ اور پیارے دوست علی اسد نواز ملک کی ایک خبر موصول ہوئی جسے پڑھ کر حقیقتاً رونگٹے کھڑے ہو گئے اور دل خون کے آنسو رو دیا کہ کیا ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں ایسا ممکن ہے مگر صد افسوس کہ شواہد اس امر کی چغلی کھاتے ہیں کہ فی زمانہ  واقعتاً ایسا ممکن ہے۔ پاکستانیوں کو ’’شرفاء کے کھیل‘‘کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے ،کرکٹ کے کھلاڑی سفید اجلے لباس زیب تن کئے میدانوں میں اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے ،میدانوں کی رونقیں بڑھاتے نظر آتے ،شائقین کے دل موہ لیتے ۔کھلاڑیوں کے لڑنے کا جذبہ دیدنی ہوتا کہ ایک ایک گیند اورا سکور کے لئے جان تک لڑا دیتے،بے یقینی کے نام سے جانے، جانے والے اس کھیل میں آخری گیند اور آخری کھلاڑی تک آس اور امید کا دیا جگمگاتا رہتا کہ اب پانسہ پلٹا کہ اب پلٹااور اکثر ایسا ہوتا کہ  بظاہر ناکام ہونے والی ٹیم ،سخت محنت،جانفشانی اور کلیتاً ٹیم ورک کے باعث ہارا ہوا میچ جیت جاتی۔ کرکٹ کی تاریخ میں ایسے بے شمار انمول اور لاجواب مقابلے محفوظ ہیں ،جنہوں نے سنسی خیزی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور شائقین کو بہترین تفریح مہیا کی۔کرکٹ کے منچلے اس سے بھرپور لطف اندوز ہوتے لیکن یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب کھیل کو بطور کھیل نہ صرف سمجھا جاتا بلکہ کھیلا بھی بطور کھیل ہی جاتا تھا،شرفاء کے اس کھیل میں کرپشن کی لعنت نا پید تھی، کھلاڑی ملک  و قوم کے وقار کی  خاطر کھیلتے اور کسی بھی ٹائٹل کا  حصول ہی  مرکز نگاہ اور کھیل ہوتا۔ برصغیر کی تقسیم کے  بعد پاکستان اور ہندوستان کی ٹیموں نے کرکٹ کی عالمی برادری میں  اپنا لوہامنوایا اور عالمی سطح پر بہترین کھلاڑی  مہیا کئے،جن کی اہلیت  و قابلیت نے ایک عالم کو اپنا گرویدہ کئے  رکھااور آج بھی یہ عظیم کھلاڑی کرکٹ کی دنیا میں  ایک لیجنڈ اور اتھارٹی کا  درجہ رکھتے ہیں۔ پاکستان 2009تک ،سخت مشکلات کے باوجود،عالمی مقابلے اپنی سرزمین پر منعقد کراتا رہا گو کہ 2009میں بھی پاکستان کی امن و امان کی صورتحال اتنی تسلی بخش نہ تھی کہ یہاں پر کسی عالمی ٹیم کو مدعو کیا جاتا بلکہ عالمی ٹیمیں پاکستان آنے سے کتراتی تھیں،ایسے میں سری لنکن ٹیم نے ،پاکستانی سپورٹ کے جواب میں تمام تر خطرات کو بالائے  طاق رکھتے ہوئے پاکستان کا  دورہ کیا مگر صد افسوس کہ حکومت  انہیں مناسب تحفظ فراہم نہ کر پائی  اور سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ۔  اس حملے نے پاکستان کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی اور  وہ دن اور آج کا دن کسی بھی عالمی سطح کی ٹیم نے پاکستان کا  رخ نہ کیا،یہ دہشت گرد کون تھے؟پکڑے گئے  یا انہیں  سزائیں ملیںیا نہیں،قطع نظر اس کہ پاکستان کرکٹ کے میدان عالمی کھلاڑیوں کی  میزبانی سے  محروم ہو گئے۔ شدت پسندی کے سر خیل،انتہا پسندی کے علمبردار اور اپنی نوعیت کے  برانڈ  اسلام کے دعویدار اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے اور عام عوام کو  شرفاء کے کھیل سے محروم کر دیا گیا،نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ کل تک کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کی شمولیت کے بغیر ادھورے رہنے والے مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کو اپنی حیثیت  برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ایسا وقت بھی آن پہنچا کہ پاکستانی ٹیم کو  آئی سی سی کی  بنیادی  شرائط پوری کرنے کے لئے کوالیفائنگ  راؤنڈ سے بچنے کی خاطر’’دعاؤں‘‘ کی ضرورت آن پڑی کہ  مختلف ٹیموں کے اگر مگر جیت  ہار سے کم ازکم  بنیادی پوائنٹس مل جانے کے باعث پاکستان آٹھویں نمبر کی ٹیم بن کر اپنی پوزیشن کو،اگلے بڑے مقابلوں کے لئے بچا پائی ۔
 
ان تمام مشکلات کے باوجود پی سی بی نے ، بحالی کرکٹ کی خاطر،بظاہر ایک  نا ممکن  قدم اٹھاتے ہوئے پی ایس ایل کی   بنیاد رکھی گو کہ پی ایس ایل کا پہلا ورژن پاکستان میں  نہ ہو سکا جبکہ  حالیہ  دوسرے  ورژن کے  تمام میچز  شارجہ اور  دبئی میں  منعقد ہوئے لیکن پی ایس ایل کا فائنل نجم سیٹھی نے لاہور  میںکروانے کا اعلان کر دیا۔ فیصلہ اس حوالے سے  اچھاضرور ہے کہ کسی بھی  طرح پاکستان کے کرکٹ میدان ، شائقین میں   دوبارہ کرکٹ کی   رنگینیاں بکھریں مگر کیا    واقعتاً یہی  وہ ایک  وجہ تھی جس کی  خاطر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانے کا اعلان کیا گیا؟یقینانہیں کہ  دیگر مصدقہ میڈیا اطلاعات  اس امر کی نفی کر  رہی ہیں جس میں   سرفہرست  حکمران جماعت کا ٹکٹوں کے حوالے سے کنٹرول، میدان کو اپنے حواریوں سے بھرنے کا پلان، حکمرانوں کے حق میں  نعرے بازی کے  ساتھ ،حکومتی وزراء کے  بیانات کے  تناظر میںکسی خاص ادارے کو پیغام رسانی کیا  یہ کرکٹ کی  خدمت ہے؟ پاکستانیوں کی   یہ دلی خواہش ہے کہ پاکستان میںکرکٹ   میدانوں کا سونا پن جلد از جلد ختم ہو،ملک میں دہشت گردی کا ناسور جڑ سے اکھڑ جائے اور ماضی کی طرح کرکٹ کی تمام بڑی ٹیمیں کھیلنے کے لئے پاکستان آئیں کہ یہ حقیقت آج بھی مسلمہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ہمیشہ سے ہی کسی بھی پیش گوئی کے حوالے سے یقینی نہیں رہی،کسی بھی  وقت کچھ بھی (مثبت یا منفی) کر دکھانے کی  صلاحیت فقط پاکستانی ٹیم میں ہے،جس سے  مخالف ٹیمیں  ہمیشہ گو مگوں کی کیفیت میں رہتی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اور ارباب اختیار سے  بصد انکسار گزارش ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے  دیا جائے ، کھیل کے میدان میں فقط کھیل ہی جچتا ہے جبکہ سیاست کے  میدانوں میں سیاست کے  داؤ پیچ آزمانے سے کوئی آپ کو نہیں روکتا،جیسے  چاہیں اور جس طرح چاہیں ،صاف ستھری عوامی فلاح و بہبود کی  سیاست کریں کہ  یہ بحیثیت  سیاستدان آپ کا حق ہے۔ 
  فائنل خیر و عافیت سے منعقد ہوگیا لیکن اگر کوئی بھی حادثہ  ہوتا  تو اس کے مضمرات  انتہائی خطرناک ہو تے کہ شدت   پسندوں نے پچھلے  چند دنوں میں،پورے ملک میں  دھماکے کرکے، جو گل کھلائے ہیں ،اس کی باز گشت ابھی فضاؤں میں ہے  اور یقینی طور پر ان  عاقبت نا اندیشوں کو سمجھانا ایسا ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا کہ اگر یہ ملک  ہی نہیں ہو گا  تو ان کے قوانین کس  دھرتی پر لاگو ہوں گے؟ساری دنیا تو ان کے  زیر اثر نہیں اور  نہ  ہی باقی دنیا کے حکمران ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ خطرے کو  سامنے دیکھتے ہوئے بھی خود کو  ہلاکت کے لئے پیش کر دیں اور ایسے اقدامات کریں جو ملکی اساس کے  منافی ہوں؟پاکستان ایک  نظریاتی ملک ہے اور اس کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے،ایک ایسے ملک میں  فقط ایک مقابلے کی خاطر ، اسٹیڈیم سے  متصلہ عبادت گاہوں کو   جبراً   سیکیورٹی کی  غرض سے  بند کرنا کہاں کی  دانشمندی ہے؟اور یہی  وہ خبر ہے ،جس نے  میرے  رونگٹے کھڑے کر دئیے کہ کیا ایک  فائنل میچ کی  خاطر بغرض سیکیورٹی ہم اللہ کے گھر کو  بند کر سکتے ہیں؟کیا  فائنل میچ  لاہور میں کروانا  اتنا ضروری  تھا۔
 

شیئر: