تیونس میں حکومت کی برطرفی بغاوت نہیں: صدر قیس سعید
تیونس میں حکومت کی برطرفی بغاوت نہیں: صدر قیس سعید
منگل 27 جولائی 2021 19:33
صدر قیس سعید نے ملک میں جاری احتجاج کے بعد وزیراعظم کو برطرف کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
تیونس میں وزیراعظم کو برطرف اور پارلیمنٹ کو 30 روز کے لیے معطل کرنے والے صدر قیس سعید نے پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت النہضہ کی جانب سے اپنے اقدام کو ’بغاوت‘ قرار دینے کو مسترد کر دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق صدر نے اسلام پسند جماعت النہضہ کے ساتھ کئی مہینوں کے ڈیڈ لاک اور اختلاف کے بعد آئین کے تحت میسر ایمرجنسی پاورز کا استعمال کیا ہے۔
قیس سعید نے حکومت کی جانب سے کورونا وبا سے نمٹنے کے معاملے پر ہونے والے احتجاج کے بعد اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ’تیونس، ریاست اور تیونس کی عوام کو بچانے کے لیے ضروری فیصلے کیے ہیں۔‘
صدر نے وزیر دفاع ابراہیم برتاجی اور قائم مقام وزیر انصف حسنہ بن سلیمان کو برطرف کرتے ہوئے رات سات سے صبح چھ بجے تک کے کرفیو کا اعلان بھی کیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے فون پر اپنے تیونسی ہم منصب سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مملکت نے تیونس میں سکیورٹی اور استحکام کی خاطر کسی بھی اقدام کو سپورٹ کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے صدر قیس سعید سے فون پر گفتگو کے دوران توقع ظاہر کی کہ جمہوریت کا احترام کیا جائے۔
امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں توقع ظاہر کی کہ ’تیونسی عوام اور تمام سیاسی فریقین کے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیار کی جائے۔‘
بیان کے مطابق ’انہوں نے صدر قیس سعید کو تیونس میں گورننس کی بنیادوں جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کا پابند رہنے سے متعلق حوصلہ دیا۔‘
انتونی بلنکن نے تیونس کی معیشت اور کورونا وبا کے خلاف امریکی تعاون کا بھی وعدہ کیا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین پساکی کا کہنا ہے کہ ’ہم تیونس میں اعلی سطح پر رابطے میں ہیں اور پرسکون رہنے کی توقع کرتے ہوئے جمہوری اصولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی تیونسی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘
فرانسیسی وزارت خارجہ نے ’جلد از جلد‘ تیونس میں حکومت کے ’معمول کے کام کو لوٹنے‘ کی توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی تمام سیاسی قوتیں تشدد کی کسی بھی قسم سے احتراض کریں۔‘
برطرف کردہ وزیراعظم ہیثم مشیشی نے کہا کہ وہ رکاوٹ نہیں بنیں گے اور صدر جسے چاہیں گے اسے ذمہ داریاں منتقل کر دیں گے۔
مشیشی کے مطابق وہ کسی بھی حیثیت میں تیونس کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔
صدر کے اعلان کے بعد تیونس میں مختلف مقامات پر لوگ ان کی حمایت میں باہر نکل آئے۔ فوجیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کو بلاک کر کے وزیراعظم مشیشی کے دفتر ک گھیراؤ کر لیا تھا۔
پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر قیس سعید اور النہضہ کے حامیوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے اور پتھراؤ کیا۔
صدر کی ایک حامی ایمن کا کہنا تھا کہ ’ہم تیونس کی حفاظت کے لیے یہاں ہیں۔ ہم نے اخوان المسلمون کے اقتدار میں تمام مسائل دیکھ لیے ہیں۔‘
صدر قیس سعید نے 2019 میں ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت انہوں نے کرپٹ اور نااہل اشرافیہ کو اپنی مہم کی بنیاد بنایا تھا۔
تیونسی صدر کا کہنا تھا کہ ان کے اقدامات آئینی ہیں اور برسوں سے جاری معاشی اور سیاسی مسائل کا جواب ہیں۔ آئین انہیں حکومت کی برطرفی اور عارضی انتظامیہ کے تقرر کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو منجمد کر کے اس کے ارکان کا استثنی ختم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
صدر جو آئین کے لحاظ سے ملکی افواج پر اختیار رکھتے ہیں نے اپنے مخالفین کو تشدد سے متعلق تنبیہہ کی تھی کہ ’اگر کسی نے ایک گولی بھی چلائی تو ہماری فورسز جواب میں گولیوں کی بارش کر دیں گی۔‘
عرب لیگ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تیونس کے وزیر خارجہ نے صورتحال سے مکمل آگاہ کیا ہے۔
بیان کے مطابق ’لیگ کو توقع ہے کہ تیونس موجودہ مشکل مرحلے سے جلد باہر آ جائے گا، استحکام اور سکون کے ساتھ ریاست کی اس صلاحیت کو بحال کیا جائے گا جس کے تحت وہ لوگوں کی ضروریات اور امنگوں کے مطابق کام کر سکے۔‘
اقوام متحدہ نے تیونس میں تمام جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ ’تشدد کو بھڑکانے سے احتراض کریں اور یقینی بنائیں کہ صورتحال پرسکون رہے۔‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان فرحان حق نے کہا کہ ’تمام تنازعات اور اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔‘
فرحان حق نے تیونس کی صورتحال کو بغاوت قرار دینے یا نہ دینے سے متعلق معاملے پر تبصرے سے انکار کر دیا۔
آئی ایم ایف کے ترجمان نے پیر کے روز جاری بیان میں کہا تھا کہ ’آئی ایم ایف کورونا وبا پر قابو پانے کے لیے تیونس کی مدد کو تیار ہے‘۔