صدر کی جانب سے پارلیمان معطل کرنے کے بعد تیونس میں کشیدگی
صدر کی جانب سے پارلیمان معطل کرنے کے بعد تیونس میں کشیدگی
پیر 26 جولائی 2021 15:35
تیونس میں کئی روز سے جاری مظاہروں میں پولیس سے تصادم بھی ہوتا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
تیونس میں صدر کی جانب سے وزیراعظم کو برطرف کرنے اور پارلیمان کو معطل کیے جانے کے اعلان کے بعد فوج نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر کے سپیکر کو عمارت میں داخلے سے روک دیا۔
عرب نیوز کے مطابق تیونس کے صدر کی جانب سے یہ اعلان ملک میں معاشی مسائل اور وبائی صورتحال کی وجہ سے ہونے والے متشدد احتجاج کے بعد کیا گیا ہے۔
تیونس کے صدر قیس سعید کی جانب سے اتوار کی رات کیے گئے فیصلے کے بعد متعدد افراد نے خوشی کا اظہار کیا تو ملک کے جھنڈے لہرانے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے ہارن بجا اور نعرے لگا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
دوسری جانب سے صدر کے فیصلے سے ناخوش افراد نے اسے اختیار پر قبضے کی ایسی کوشش سے تعبیر کیا ہے کہ جو ملک کی نئی جمہوریت کو کمزور کرے گی۔
پارلیمنٹ کے سپیکر اور اسلامی تحریک النہضہ کے سربراہ پروفیسر راشد الغنوشی نے اسے ’آئین اور (عرب بہار) انقلاب کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔‘
قیس سعید نے وزیراعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرتے ہوئے سڑکوں پر غم و غصہ بھرے احتجاج کے بعد ہدایت کی تھی کہ پارلیمنٹ کو 30 روز کے لیے بند کر دیا جائے۔
پیر کی صبح سے ہی فوجیوں نے اسمبلی کی عمارت کو بند کر دیا تھا جب کہ باہر صدر کے حامیوں کی جانب سے النہضہ کے ان حامیوں پر پتھراؤ کیا گیا جو عمارت میں داخلے سے روکے جانے پر احتجاج کر رہے تھے۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز نے دو سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ صدر نے پیر کے روز صدارتی سکیورٹی یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل اور اپنے اتحادی خالد یہیاوی کو دہایت کی ہے کہ وہ وزارت داخلہ کے معاملات دیکھیں۔
2011 میں انقلاب کے بعد سے صدر قیس سعید کی جانب سے اٹھایا گیا ڈرامائی اقدام ایسی کیفیت میں سامنے آیا ہے جب آئین پارلیمانی جمہوریت کے مقابلے میں سکیورٹی اور ڈپلومیسی سے متعلق صدارتی اختیارات کو خاصا محدود رکھتا ہے۔
تیونس کی اتحادی حکومت کی سب سے بڑی جماعت النہضہ کا ایک فیس بک پوسٹ میں کہنا ہے کہ ’یہ آئین اور انقلاب کے خلاف بغاوت ہے‘اور خبردار کیا ہے کہ اس کے کارکنان ’انقلاب کا دفاع کریں گے۔‘
یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب صدر، وزیراعظم اور غنوشی کے درمیان طویل ڈیڈ لاک موجود ہے، اس کے نتیجے میں سنگین ہوتے کورونا بحران کو بھی درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جا سکا ہے۔
اتوار کو دیے گئے بیان میں صدر قیس سعید کا کہنا تھا کہ ’میں نے تیونس کی ریاست اور لوگوں کو بچانے کے لیے ضروری فیصلے کیے ہیں۔‘
صدر کے اعلان کے بعد ان کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ہزاروں حامی دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل کر گاڑیوں کے ہارن بجا اور آتش بازی کے ذریعے خوشی کا اظہار کرتے رہے۔
تاہم تیونس کے صدر کے اس اقدام کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے ’جمہوریت کی بحالی‘ کا مطالبہ کیا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوو نے مختصر تبصرے میں کہا ’روس تیونس میں ہونے والی پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ کسی بھی اقدام سے ملک کے شہریوں کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ نہیں ہو گا۔‘
جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ ادیباہر نے کہا کہ جرمنی کو توقع ہے کہ ’تیونس جلد از جلد آئینی استحکام کی جانب لوٹے گا۔ ہم بغاوت پر بات نہیں کرنا چاہتے تاہم ہمیں تشویش ہے۔ آئین کی بالادستی کی طرف جلد از جلد واپسی اہم ہے۔‘
العربیہ ٹیلی ویژن نے راشد الغنوشی کے قافلے کی تصویر نشر کی ہے جس میں وہ تیونس کی پارلیمنٹ کے باہر موجود اور النہضہ چیف کے مخالفین کی جانب سے پتھراؤ کا شکار ہوا ہے۔
تیونس کی معیشت کئی برسوں سے مشکلات کا شکار ہے، ملک میں افریقہ کی سب سے بدترین وبائی صورتحال کی وجہ سے لاک ڈاؤن سمیت دیگر پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔
صدر کے اعلان کے بعد ملک کے دارالحکومت میں مختلف مقامات پر فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
ایف ایم نیوز ریڈیو کے مطابق رات کے وقت سپیکر راشد الغنوشی نے ایک ساتھی کے ہمراہ پارلیمنٹ پہنچنے کی کوشش کی تاہم انہیں روک دیا گیا۔ صدارتی اعلان کے باوجود سپیکر کا اصرار تھا کہ پارلیمنٹ کو فعال رہنا چاہیے۔
صدر نے تشدد کو اپنے فیصلوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے تنبیہہ کی کہ امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے والے عناصر کے خلاف شدید کارروائی کی جائے گی۔
ملٹری انداز میں ٹیلی ویژن پر جاری کردہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ فیصلے کیے ہیں ۔۔۔ جب تک تیونس میں سماجی امن واپس نہیں آ جاتا اور ریاست کو بچا نہیں لیا جاتا۔‘