تیونس میں سیاسی بحران، عالمی برادری کا پرامن رہنے پر زور
تیونس میں سیاسی بحران، عالمی برادری کا پرامن رہنے پر زور
پیر 26 جولائی 2021 22:40
عالمی سطح پر تیونسی صدر کے اقدام پر سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
تیونس کے صدر قیس سعید نے وزیراعظم کی برطرفی اور پارلیمنٹ معطل کرنے کے اعلان کے اگلے روز وزیر دفاع کو بھی برطرف کر دیا ہے، جس سے تیونس کی نو آموز جمہوریت وبائی صورتحال میں آئینی بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
پیر کے روز فوج کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کی گئی پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے اس وقت تصادم کے واقعات بھی ہوئے جب صدر نے وزیراعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو 30 روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس اقدام کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت النہضہ نے ’بغاوت‘ قرار دیا ہے۔
قیس سعید نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ’تیونس، ریاست اور تیونس کی عوام کو بچانے کے لیے ضروری فیصلے کیے ہیں۔‘
آئین کے تحت افواج کو کنٹرول کرنے کا اختیار رکھنے والے صدر نے مخالفین کو مسلح جدوجہد سے باز رہنے کی تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اگر کسی نے ایک بھی گولی چلائی تو ہماری افواج جواب میں گولیوں کی بارش کر دیں گی۔‘
پیر کی دوپہر کو ایوان صدر سے جاری کردہ بیان میں وزیردفاع ابراہیم برتاجی، اور قائم مقام وزیرانصاف اور حکومت کی ترجمان حسنہ بن سلمان کی برطرفی کا اعلان کیا گیا ہے۔
پیر کی ابتدا سے ہی فوجیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کو بند کیا تو اس کے سامنے موجود صدر کے حمایتیوں نے اسلام پسند النہضہ کے سربراہ کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روکے جانے کے بعد ان کے حامیوں پر پتھر اور بوتلیں پھینکیں اور ان کی توہین کی۔
فوجیوں کی جانب سے شمالی افریقن ملک کے برطرف کردہ وزیراعظم ہشام مشیشی کے دفتر کا گھیراؤ بھی جاری ہے جنہوں نے ابھی تک معاملے پر کوئی باقاعدہ ردعمل نہیں دیا ہے۔
پیر کی دوپہر تک احتجاج کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔
تیونس کی اتحادی حکومت کی سب سے بڑی جماعت النہضہ کا ایک فیس بک پوسٹ میں کہنا ہے کہ ’یہ آئین اور انقلاب کے خلاف بغاوت ہے‘اور خبردار کیا ہے کہ اس کے کارکنان ’انقلاب کا دفاع کریں گے۔‘
تیونس کی مخلوط حکومت کی بڑی جماعت النہضہ نے اس اقدام ’انقلاب اور آئین کے خلاف بغاوت‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’ان کے ارکان انقلاب کا دفاع کریں گے۔‘
حالیہ بحران ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کئی مہینوں سے صدر، وزیراعظم اور النہضہ کے سربراہ راشد غنوشی کے درمیان ڈیڈلاک رہ ہے۔ اس کے نتیجے میں وبائی صورتحال خراب ہوئی اور نتیجتا ایک کروڑ 20 لاکھ آبادی کے ملک تیونس میں 18 ہزار ہلاکتوں کے ساتھ شرح اموات کہیں زیادہ رہی ہے۔
پولیس کی جانب سے قطری چینل الجزیرہ کا مقامی بیورو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ چینل کے تیونس میں ڈائریکٹر لطفی حاجی نے دفتر کی بندش کی تصدیق کرتے ہوئے تنبیہہ کی کہ ’جو ہو رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ میڈیا کی آزادی کو دھمکایا گیا ہے۔‘
دنیا کا ردعمل
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو ان کے تیونسی ہم منصب نے فون کر کے ملک میں ہونے والی واقعات اور پیشرفت سے آگاہ کیا۔
گفتگو کے دوران شہزادہ فیصل نے مملکت کی جانب سے تیونس کی سکیورٹی، استحکام اور خوشحالی اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں معاون کاموں سے تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات اور مختلف شعبوں میں انہیں بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لیا۔
امریکہ کی جانب سے تیونسی صدر کی جانب سے حکومت کی برطرفی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے تیونس سے مطالبہ کیا کہ ’جمہوری اصولوں‘ کی پاسداری کی جائے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین پساکی نے میڈیا کو بتایا کہ ’ہمیں تیونس میں ہونے والی پیشرفت پر تشویش ہے۔ ہم سینئر سطح پر رابطے میں ہیں اورجمہوری اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی تیونسی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔‘
فرانس نے تیونس میں قانون کی حکمرانی کے احترام کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں سے تشدد سے باز رہنے کا کہا۔
عرب لیگ نے پیر کے روز تیونس کے وزیرخارجہ سے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو میں ملک کو استحکام کی جانب واپس لے جانے کی توقع کا اظہار کیا۔
عرب لیگ کے بیان کے مطابق تیونس کے وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل کو صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’لیگ کو توقع ہے کہ تیونس موجودہ بحران سے جلد نکل آئے گا اور استحکام و سکون کے ذریعے لوگوں کی ضرورت اور خواہشات کے مطابق ریاست کے کام کرنے کی صلاحیت کو بحال کر دیا جائے گا۔‘
اقوام متحدہ نے تیونس کی تمام جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ ’تشدد سے اجتناب کریں اور یقینی بنائیں کہ صورتحال پرسکون رہے۔‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان فرحان حق نے پیر کے روز کہا کہ ’تمام اختلافات اور تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔‘
فرحان حق نے تیونس کی صورتحال کو بغاوت سمجھنے کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ترکی کی وزارت خارجہ نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے ’جمہوریت کی بحالی‘ کا مطالبہ کیا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوو نے مختصر تبصرے میں کہا ’روس تیونس میں ہونے والی پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ کسی بھی اقدام سے ملک کے شہریوں کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ نہیں ہو گا۔‘
جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ ادیباہر نے کہا کہ جرمنی کو توقع ہے کہ ’تیونس جلد از جلد آئینی استحکام کی جانب لوٹے گا۔ ہم بغاوت پر بات نہیں کرنا چاہتے تاہم ہمیں تشویش ہے۔ آئین کی بالادستی کی طرف جلد از جلد واپسی اہم ہے۔‘
قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق قطر نے پیر کے روز تیونس کے سیاسی بحران سے متعلق تمام پارٹیوں سے مطالبہ کیا کہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائیں۔
وزارت خارجہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کیو این اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’قطر کو توقع ہے تیونس کی جماعتیں بحران سے نکلنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گی‘۔
پیر کو فوجیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کو بند رکھا جب کہ اس کے باہر صدر کے حامیوں نے النہضہ کے ان افراد پر پتھراؤ کیا جن کے رہنما راشد الغنوشی نے عمارت میں داخلے سے روکے جانے کے بعد وہاں دھرنا دیا تھا۔
بعد میں العربیہ ٹیلی ویژن نے خبر دی کہ سپیکر وہاں سے چلے گئے تھے۔ ایک تصویر بھی نشر کی گئی جس میں النہضہ سربراہ کے مخالفین کے پتھراؤ سے متاثر ہونے والی گاڑی دکھائی گئی تھی جس کی کھڑکی کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔
تیونس کی معیشت کئی سالوں سے مشکلات کا شکار ہے۔ ملک نے حال ہی میں وبائی صورتحال سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیاں عائد کی ہیں۔
پارلیمنٹ کے سپیکر اور اسلامی تحریک النہضہ کے سربراہ پروفیسر راشد الغنوشی نے اسے ’آئین اور (عرب بہار) انقلاب کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔‘
ایف ایم نیوز ریڈیو کے مطابق رات کے وقت سپیکر راشد الغنوشی نے ایک ساتھی کے ہمراہ پارلیمنٹ پہنچنے کی کوشش کی تاہم انہیں روک دیا گیا۔ صدارتی اعلان کے باوجود سپیکر کا اصرار تھا کہ پارلیمنٹ کو فعال رہنا چاہیے۔
صدر نے تشدد کو اپنے فیصلوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے تنبیہہ کی کہ امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے والے عناصر کے خلاف شدید کارروائی کی جائے گی۔
ملٹری انداز میں ٹیلی ویژن پر جاری کردہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ فیصلے کیے ہیں ۔۔۔ جب تک تیونس میں سماجی امن واپس نہیں آ جاتا اور ریاست کو بچا نہیں لیا جاتا۔‘
انہوں نے تیونس کے آئین کی ایک شق کو استعمال کیا ہے جس کے تحت ’ملک کی آزادی اور اداروں کو درپیش خطرے کی وجہ سے غیرمعمولی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔‘
ان اقدامات کے تحت وہ پارلیمنٹ کو غیر معین مدت کے لیے معطل رکھ کر ایگزیکٹو اختیارات استعمال کر سکتے ہیں۔
تاہم راشد الغنوشی کا کہنا ہے کہ صدر نے ان سے یا وزیراعظم سے مشاورت نہیں کی جو مذکورہ شق کے تحت لازم ہے۔ تینوں کے درمیان تنازع رہا ہے۔
دیگر جانب سے بھی صدارتی فیصلے پر تنقید کی گئی ہے۔
سابق صدر منصف مرذوقی نے سیاسی مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہوئے فیس بک ویڈیو میں کہا کہ ’ہم نے آج پیچھے کی جانب سفر کیا ہے، ہم ڈکٹیٹر شپ کی جانب لوٹے ہیں۔‘