Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا امریکہ اور انڈیا کے انخلا کے بعد افغان حکومت کابل بچا پائے گی؟

0 seconds of 54 secondsVolume 90%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:54
00:54
 
افغانستان میں طالبان کی مسلسل کامیابیوں اور سرکاری فوج کی متعدد صوبوں سے پسپائی  کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ ’افغان حکومت اور فوج کو اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی جبکہ انڈیا نے افغانستان کے شہر مزار شریف میں اپنا آخری قونصل خانہ بھی بند کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو ملک سے نکل جانے کی ہدایت کی ہے۔‘
بدھ کو افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’انھوں نے صوبہ بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس سے قبل ایک ہفتے میں طالبان آٹھ شہروں پر قبضہ کر چکے ہیں اور پل خمری پر قبضے کے بعد کابل سے طالبان کا فاصلہ اب قریب 200 کلومیٹر رہ گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ’یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ اب افغانستان میں مزید حملے نہیں کرنا چاہتا جبکہ انڈیا کی جانب سے افغانستان سے یوں اچانک انخلا کابل حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔‘

امریکی صدر کے مطابق ’افغانستان کے عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ افغانستان میں فوجی حملے نہیں کرے گا
افغانستان کی تازہ صورت حال پر اردو نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے امریکی تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر میں ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ ’یہ واضح ہو رہا ہے کہ امریکہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ مزید افغان فورسز کی فوجی مدد نہیں کرے گا۔‘
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کبری کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سے واضح ہو گیا کہ اب امریکی حکومت 31 اگست کے بعد افغان فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے یا کوئی اور فوجی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اس بیان کا مقصد ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہے کہ امریکہ طالبان کے شہروں کے قبضے کے بعد شاید افغانستان میں رک جائے۔‘
لندن میں مقیم افغان صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسف زئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امریکی اقدامات پر حیرت نہیں ہے۔ ’ظاہر ہے آخر کار یہ امریکہ کی جنگ تو نہیں تھی۔ وہ یہاں لڑے اپنے مقاصد حاصل کیے جن میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ، القاعدہ نیٹ ورک تباہ کرنا اور اسامہ بن لادن کا قتل شامل تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہاں لاکھوں بچیوں کی پڑھائی کے لیے سکول بھی قائم کیے اور ترقیاتی کام بھی کروائے، مگر انہیں بالآخر یہاں سے جانا تھا اور ذمہ داری افغانوں کو ہی نبھانا تھی۔‘
سمیع یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ’یہ افغان حکومت کی ناکامی ہے کہ کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے کوئی ایسا نظام نہیں بنایا کہ ملک کا مضبوط دفاع کیا جا سکے اور اس طرح ایک اہل فوج بھی نہیں تشکیل دے سکے۔‘
اسلام آباد میں بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ’امریکہ نے افغانستان سے ہاتھ اٹھا دیا ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ کی شروع سے پالیسی تھی کہ افغان جنگ سے نکلنا ہے۔ اسی پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ منگل کو وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن نے افغانستان کی تازہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں وہاں سے فوجی انخلا کے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کی لڑائی لڑنے اور اس کا دفاع کرنے کی ذمہ داری اب افغان رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن 31 اگست کو مکمل طور پر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا اور افغانستان کے عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہو گا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو 20 سال کی جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے۔‘

انڈیا نے افغانستان سے اپنے شہریوں کا انخلا شروع کر رکھا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’انڈیا کا افغانستان سے انخلا کابل کے لیے بڑا دھچکہ‘
مائیکل کوگلمین کے مطابق انڈیا کا افغانستان سے اپنے شہریوں کو نکالنے کا فیصلہ کابل حکومت کے لیے نفسیاتی دھچکہ ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ افغانستان کے قریبی ترین دوست اس پر اعتماد کھونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی اعتبار سے افغان حکومت نے چاہے نیٹو پر انحصار کیا ہو مگر اس کے تعلقات نئی دہلی کے ساتھ زیادہ گرمجوش تھے۔
تاہم سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ انڈیا افغانستان میں فوجی لحاظ سے زیادہ مصروف عمل نہیں تھا ہاں فوجی سازو سامان اور ہیلی کاپٹرز وغیرہ کی فراہمی ضرور کی گئی تھی تاہم کابل میں انڈیا کے فوجی پہلے بھی موجود نہ تھے۔
منگل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں انڈیا کے سفارت خانے سے ٹویٹ کے ذریعے جاری کی گئی ٹریول ایڈوائزری کے مطابق ’افغانستان کے مختلف علاقوں میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور کمرشل پروازویں بند ہو رہی ہیں۔ تمام انڈین شہری پروازیں بند ہونے سے پہلے سفر کا انتظام کریں۔‘
اس سے قبل انڈیا نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر مزار شریف سے اپنے شہریوں کو واپس لانے کے لیے ایک خصوصی پرواز روانہ کر رہا ہے۔

مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ طالبان کا آگے بڑھنا اسلام آباد کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے (فوٹو: اے ایف پی)

کیا طالبان کا کابل پر قبضہ قریب ہے؟
افغان تجزیہ کار اور سینیئر صحافی سمیع یوسف زئی سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی طالبان پر امریکہ کا فوجی دباؤ ہٹا ہے افغانستان کا دفاعی نظام بکھر چکا ہے۔ ان کے خیال میں اگلے دو تین ہفتوں میں طالبان کابل کے دروازے پر ہوں گے  اور انہیں روکنا خاصا مشکل ہوگا۔ ’اب تک افغان افواج کا زیادہ زور کابل کو بچانے پر ہے اور یہاں پر فوجی قوت اور کمانڈوز کو اکھٹا کیا جا رہا ہے تاہم ایک طرف طالبان کا مورال بلند ہے تو دوسری جانب افغان افواج کا مورال ڈاون لگ رہا ہے اور شاید تین ہفتوں تک یہ نظام (افغان حکومت) قائم نہ رہ سکے۔
اس سوال پر کہ کابل حکومت کے لیے کسی بیرونی مدد کا کوئی امکان ہے سمیع یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اب ایسا ممکن نہیں لگتا بلکہ یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے بھی ذہن بنا لیا ہے۔ طالبان نے بھی ذہن بنا لیا ہے اور پاکستان نے بھی ذہن بنا لیا ہے کہ کابل کا ملٹری ٹیک اوور ہی ہو گا۔ تاہم اس کے بعد کیا کرنا ہے اس کے لیے طالبان کے پاس کوئی جامع پلان نہیں ہے۔
تاہم مائیکل کوگلمین سمجھتے ہیں کہ طالبان کے کابل پر فوری قبضے کا امکان نہیں ہے کیونکہ افغانستان کی فوج کے طاقتور ترین دستے دارالحکومت میں تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ اگر افغان حکومت کسی طرح افواج کا مورال بلند کر سکے اور انہیں اچھے وسائل مہیا کر سکے تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ طالبان نے زیادہ علاقوں پر قبضہ اس لیے بھی کیا کہ افغان فوجی لڑنے کی خواہش نہیں رکھتے ورنہ انہیں میدان میں شکست نہیں ہوئی۔ کابل کے لیے ضروری ہے کہ حالات کا دھارا بدلے۔
تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق یہ ابھی لمبی جنگ ہے طالبان کی کامیابیوں کے باجود ابھی تک قندھار، ہرات اور کابل جیسے بڑے شہروں پر افغان حکومت کا قبضہ ہے اور شاید حکومت کی حکمت عملی بھی یہی ہے کہ اہم اور بڑے شہروں کو بچایا جائے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کابل میں طالبان کی کامیابیوں کے خطے پر دور رس اثرات ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بدھ کو کہا ہے کہ افغانستان کے حالات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کچھ قوتیں امن کے مخالف کام کررہی ہیں جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کے الزامات جاری ہیں مگر پھر بھی ہمارارویہ مثبت ہے، ہم افغانستان میں بہتری چاہتے ہیں اور وہاں کے عوام امن چاہتے ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق صورتحال پاکستان کے لیے خاصی پیچیدہ ہے کیونکہ طالبان کی کامیابی کی صورت میں مقامی شدت پسند سر اٹھا سکتے ہیں جبکہ افغان حکومت پہلے ہی پاکستان پر شدید الزام تراشی کر رہے اور وہاں پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ اس لیے پاکستان کے لیے بہتر راستہ یہی ہو سکتا ہے کہ فریقین مذاکرات پر راضی ہو جائے۔
مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ طالبان کا آگے بڑھنا اسلام آباد کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے کیونکہ طالبان کی زیادہ کامیابیوں سے پاکستانی شدت پسندوں کو تقویت مل سکتی ہے اور پہلے ہی تحریک طالبان پاکستان کے حملے دوبارہ شروع ہو چکے ہیں۔ اس لیے خطرہ ہے کہ طالبان کی فتح سے حوصلہ پکڑ کر پاکستانی شدت پسند ملک میں تشدد کی کاروائیوں میں اضافہ نہ کر دیں۔
تاہم سمیع یوسف زئی کے مطابق فی الحال طالبان کی کامیابیاں شاید پاکستان کے لیے اس لیے خوشی کا باعث ہوں کہ کابل میں پاکستان مخالف حکومت اور اس کا انڈیا کے ساتھ تعاون ختم ہو گا مگر اس کے دور رس اثرات کا اسلام آباد نے شاید ابھی جائزہ نہیں لیا۔

شیئر: