پاکستان کی مشرقی سرحد اور لاہور سے تقریبا 30 کلومیٹر پاکستان کے آخری ریلوے سٹیشن پر انڈین ٹرین کھڑی ہے اور پچھلے دو سال سے اس انتظار میں ہے کہ مودی حکومت اسے واپس اپنے ملک لے جائے۔
واہگہ سٹیشن کے ریلوے ٹریک پر گراؤنڈ زیرو سے صرف 500 میٹر کے فاصلے پر کھڑی اس نیلے رنگ کی ٹرین کے پہیوں کے ارد گرد گھاس اگ چکی ہے۔ ٹرین کی بوگیوں پر جگہ جگہ ہندی میں اشتہار اور بعض اشتہاروں میں وراٹ کوہلی کی تصویر دھوپ اور بارشوں کی وجہ سے دھندلا چکی ہے۔
یہ ٹرین انڈین ریلویز کے ناردرن ریلوے زون سے تعلق رکھتی ہے اور پاکستان کے سفر کے لیے سمجھوتہ ایکسپریس کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے مقدمے میں چاروں ملزمان بریNode ID: 408611
اس ٹرین کے بے یارومددگار ہونے کی کہانی آٹھ اگست 2019 سے شروع ہوتی ہے جب پاکستان اور انڈیا کے مابین سرحدی کشیدگی کی وجہ سے آمد و رفت کے تمام راستے بند کر دیے گئے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے ہر طرح کے عوامی اور تجارتی رابطے منقطع کر لیے۔ اور اس کی وجہ تھی اس سال 5 اگست کو انڈیا کا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا۔
ہوا کچھ یوں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے لیے ان دنوں جو ٹرین سرحد کے آر پار مسافروں کو لانے لے جانے کے لیے استعمال ہو رہی تھی وہ یہی انڈین ٹرین تھی۔ کیونکہ پاکستان ریلویز اور انڈین ریلویز کے مابین آخری معاہدے کے مطابق چھ مہینے پاکستانی اور چھ مہینے انڈین ٹرین سرحد پار کرنے کے لیے استعمال ہونا تھی۔
جن موسموں میں سرحدی رابطے منقطع ہوئے ان دنوں انڈین ٹرین کی سرحد پار سے مسافر لانے کی باری چل رہی تھی۔ یہ ٹرین پاکستان کی سرحد عبور کر کے مسافر لینے تو آئی مگر پھر واپس نہ جا سکی۔

پاکستان ریلویز کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا ’یہ سب کچھ اچانک ہوا تھا دونوں طرف کشیدگی اتنی زیادہ بڑھ گئی کیونکہ کشمیر کا لاک ڈاون کیا جا چکا تھا اور سب کچھ بہت تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بارڈر سیل ہو چکے تھے اور آخری سٹیشن سے عملہ بھی واپس بلا لیا گیا تھا۔ یہ صرف ادھر نہیں بلکہ ادھر بھی ایسے ہی تھا۔
اس کے بعد بہرحال ہم نے اس ٹرین کے حفاظت کے لیے ریلوے پولیس کے کچھ جوان تعینات کر دیے۔ بارڈر کے قریب رینجرز کا گشت بھی تھا تو ہمارا خیال تھا کہ حالات تھوڑے بہتر ہونے پر اس ٹرین کو روانہ کر دیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’انڈیا کو پچھلے دوسالوں میں کئی بار اطلاع دی گئی کی وہ اپنی ٹرین واپس لے جائیں لیکن ادھر سے کبھی بھی اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ اور ہمیں اس بات کی کبھی بھی سمجھ نہیں آئی۔ دو تین مہینے پہلے تھوڑی سی حرکت ہوئی کہ شاید اب یہ ٹرین واپس چلی جائے لیکن اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی۔‘
سمجھوتہ ایکسپریس کی تاریخی حیثیت:
پاکستان اور انڈیا کے مابین سمجھوتہ ایکسپریس شملہ معاہدے کے بعد 22 جولائی 1976 کو شروع ہوئی۔ ابتدا میں یہ سروس امرتسر سے لاہور تھی اور روزانہ کی بنیاد پر چلتی تھی۔
بعد ازاں 1994 میں اس سروس کو ہفتے میں صرف دو دن کر دیا گیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو چلانے کا نیا معاہدہ پاکستان ریلویز اور انڈین ریلویز کے درمیان سال 2000 میں ہوا۔ پہلے پہل جس ملک کی ٹرین ہوتی اسی شام اپنے ملک واپس آ جاتی تھی لیکن اس کے بعد ایک طرف سے جانے والی ٹرین دوسرے ملک میں ایک رات کھڑی رہتی تھی اور پھر اگلے دن واپس آتی تھی۔
نئے معاہدے کے تحت پاکستان سے جانے والی ٹرین اٹاری تک مسافروں کو لے کر جاتی تھی، جہاں سے آگے مسافروں کو دہلی اٹاری ٹرین میں سوار کیا جاتا تھا۔ اسی طرح انڈیا سے آنے والی ٹرین واہگہ تک آتی تھی جہاں سے ایک شٹل ٹرین سے مسافروں کو لاہور ریلوے سٹیشن پر لایا جاتا تھا۔ اس نئے معاہدے میں یہ بھی شق تھی کہ اٹاری واہگہ کی کراسنگ پر چھ مہینے پاکستانی اور چھ مہینے انڈین ٹرین چلے گی۔
