Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صدر اشرف غنی کو باہر جانے دینے کے بجائے گرفتار کرنا چاہیے تھا‘

طالبان گزشتہ چند دنوں سے افغانستان کے متعدد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے ہوئے اتوار کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں موجود صدرارتی محل پر کنٹرول کا دعویٰ بھی کر چکے ہیں۔
پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال پاکستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت ایک ہی موضوع زیر بحث ہے جو کہ طالبان اور افغانستان ہے۔
صارفین کی جانب سے تبصروں کا ایک طویل سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اتوار کو افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کی خبر نشر ہوئی۔ 
طالبان قیادت کی جانب سے ہدایات کے بعد طالبان جنگجو دارالحکومت کابل میں داخل ہو گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جہاں کچھ صارفین طالبان یا افغان حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے وہیں صارفین نے طالبان کے غالب آجانے پر سوالات بھی اٹھائے۔
صارف منیزے جہانگیر نے لکھا ’طالبان کے قبضے کا جشن منانے والو! کیا آپ اے پی ایس کے بچوں کو بھول گئے ہیں؟ کیا آپ اپنے بچوں کو طالبان کی حکومت میں پالیں گے؟ طالبان کے قبضے کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے لکھا کہ ’ افغانستان کی صورتحال کو خوف سے دیکھ  رہی ہوں ۔  دنیا افغان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ہار چکی ہے، خدا افغانستان پر رحم کرے۔‘
حماد احمد اپنے خیالات کا اظہار کرتے لکھتے ہیں کہ ’پورے ملک پر چند ہی ہفتوں میں کنٹرول حاصل کرنا عوامی حمایت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ طالبان کو کہیں پر بھی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا، الٹا عوام نے پھولوں کے ہار پہنائے سیلفیاں بنائیں۔
یہ افغانوں کا داخلی معاملہ ہے وہ جس کو چاہیں حکومت دیں، کسی اور کا درد سر نہیں ہونا چاہیے۔‘

 

سابق صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے حوالے سے ٹوئٹر ہینڈل اے کے لکھتے ہیں کہ ’اشرف غنی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے بجائے انہیں دہشت گردی کے جرم میں گرفتار کرنا چاہیے تھا۔‘

 

صارف خالد ماضی کی ایک تصویر کا موازنہ امریکی آج کی افغانستان کی ایک تصویر سے کرتے ہیں، لکھتے ہیں کہ ’ بائیں جانب امریکی ایمبیسی 1975 میں ویت نام کے شہر سئیگون میں اور دائیں جانب امریکی ایمبیسی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں۔
ٹوئٹر صارف عینی خان طالبان کی  سرکاری دفتر میں موجودگی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’کوئی سی ایس ایس نہیں کوئی پی ایم ایس نہیں یہ افغانستان کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔‘

شیئر: