طالبان گزشتہ چند دنوں سے افغانستان کے متعدد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے ہوئے اتوار کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں موجود صدرارتی محل پر کنٹرول کا دعویٰ بھی کر چکے ہیں۔
پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال پاکستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
طالبان کابل میں، افغانستان کی اعلیٰ قیادت پاکستان میںNode ID: 591626
-
صدر اشرف غنی افغانستان چھوڑ کر چلے گئےNode ID: 591661
پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت ایک ہی موضوع زیر بحث ہے جو کہ طالبان اور افغانستان ہے۔
صارفین کی جانب سے تبصروں کا ایک طویل سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اتوار کو افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کی خبر نشر ہوئی۔
طالبان قیادت کی جانب سے ہدایات کے بعد طالبان جنگجو دارالحکومت کابل میں داخل ہو گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جہاں کچھ صارفین طالبان یا افغان حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے وہیں صارفین نے طالبان کے غالب آجانے پر سوالات بھی اٹھائے۔
صارف منیزے جہانگیر نے لکھا ’طالبان کے قبضے کا جشن منانے والو! کیا آپ اے پی ایس کے بچوں کو بھول گئے ہیں؟ کیا آپ اپنے بچوں کو طالبان کی حکومت میں پالیں گے؟ طالبان کے قبضے کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔‘
Those celebrating the Taliban takeover, have you forgotten the children of APS? Will you bring up your children under Taliban rule?The takeover of the Taliban must be strongly condemned.Extremism knows no boundaries & I fear violent deep repercussions for Pakistan. #Kabul
— Munizae Jahangir (@MunizaeJahangir) August 15, 2021
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے لکھا کہ ’ افغانستان کی صورتحال کو خوف سے دیکھ رہی ہوں ۔ دنیا افغان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ہار چکی ہے، خدا افغانستان پر رحم کرے۔‘
Watching the events unfolding in #Afghanistan with dread. The world has failed the men, women and children of Afghanistan.May God have mercy.
— Aseefa B Zardari (@AseefaBZ) August 15, 2021
حماد احمد اپنے خیالات کا اظہار کرتے لکھتے ہیں کہ ’پورے ملک پر چند ہی ہفتوں میں کنٹرول حاصل کرنا عوامی حمایت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ طالبان کو کہیں پر بھی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا، الٹا عوام نے پھولوں کے ہار پہنائے سیلفیاں بنائیں۔
یہ افغانوں کا داخلی معاملہ ہے وہ جس کو چاہیں حکومت دیں، کسی اور کا درد سر نہیں ہونا چاہیے۔‘
پورے ملک پر چند ہی ہفتوں میں کنٹرول حاصل کرنا عوامی حمایت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ طالبان کو کہیں پر بھی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا، الٹا عوام نے پھولوں کے ہار پہنائے سیلفیاں بنائیں۔
یہ افغانوں کا داخلی معاملہ ہے وہ جس کو چاہیں حکومت دیں، کسی اور کا درد سر نہیں ہونا چاہئیے۔— Hammad Ahmad (@i_hmd3) August 15, 2021
سابق صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے حوالے سے ٹوئٹر ہینڈل اے کے لکھتے ہیں کہ ’اشرف غنی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے بجائے انہیں دہشت گردی کے جرم میں گرفتار کرنا چاہیے تھا۔‘
Instead of letting #Ashraf Ghani leaving #Afghanistan, he should have been arrested for war crimes and terrorism! Not sure where did he go and why was spared without trial? #Taliban #Kabul #Afghan #india @AlJazeera @AFP @nytimes @washingtonpost @hrw
— AK (@AK47319026) August 15, 2021
صارف خالد ماضی کی ایک تصویر کا موازنہ امریکی آج کی افغانستان کی ایک تصویر سے کرتے ہیں، لکھتے ہیں کہ ’ بائیں جانب امریکی ایمبیسی 1975 میں ویت نام کے شہر سئیگون میں اور دائیں جانب امریکی ایمبیسی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں۔
Left: The US Embassy in Saigon, 1975
Right: The US Embassy in Kabul, 2021.“Those who cannot remember the past are condemned to repeat it”
- George Santayana #Afghanistan #Kabul #Taliban #أفغانستان #America pic.twitter.com/E633fMJ48p— The Khⓐled (@khaledbihi) August 15, 2021