خون ریزی کے سیلاب کو روکنے کے لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا: اشرف غنی
افغانستان کے صدر اشرف غنی کا ملک چھوڑنے بعد پہلا بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خون ریزی روکنے کے لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اشرف غنی کا اپنے فیس بک پیج پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ ’آج مجھے مسلح طالبان کے سامنے کھڑے ہونے جو صدارتی محل میں داخل ہونا چاہتے تھے یا اپنے پیارے ملک کو چھوڑ جانے میں سے ایک مشکل انتخاب کا سامنا تھا۔‘
’اگر میں رہتا تو بے شمار ہم وطن شہید ہوتے اور کابل شہر کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجہ 60 لاکھ کے شہر میں ایک بڑے انسانی المیے کی صورت میں رونما ہوتا۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مجھے ہٹانے کے لیے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خونریزی کے سیلاب سے بچنے کے لیے میں نے بہتر سمجھا کہ باہر چلا جاؤں۔‘
’طالبان نے تلوار اور بندوق کی جنگ جیت لی ہے اور اب وہ اہل وطن کی جان و مال اوعزت کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن انہوں نے لوگوان کے دل نہیں جیتے۔ صرف طاقت نے تاریخ میں کبھی کسی کو جواز حکمرانی اور قانونی حیثیت نہیں دی اور نہ دے گی۔‘
افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ ‘اب طالبان کو ایک نئے تاریخی امتحان کا سامنا ہے وہ یا تو افغانستان کا نام اور وقار برقرار رکھیں گے یا دیگر جگہوں اور نیٹ ورکس کو ترجیح دیں گے۔ بہت سے لوگ اور بہت سے طبقات خوفزدہ اور مستقبل کی حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ طالبان کےلئے ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے تمام لوگوں، قبائل، مختلف طبقات، بہنوں اور خواتین کو یقین دلائیں اور قانونی حیثیت حاصل کرنے اور لوگوں کے دل جیتنے کے لیے ایک واضح منصوبہ بنائیں اور اسے عوام کے ساتھ شیئر کریں۔ میں ہمیشہ اپنے لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔ مزید بہت سی باتیں مستقبل کے لئے چھوڑ رہا ہوں۔‘
اشرف غنی نے اپنے بیان میں واضح نہیں کیا کہ وہ اس وقت کس ملک میں ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر اطلاعات زیر گردش ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت ازبکستان چلے گئے ہیں۔
قبل ازیں اافغانستان کی سپریم نیشنل ری کنسلییشن کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’سابق صدر‘ اشرف غنی اس مشکل وقت میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ’ایک سخت دن اور رات جلد گزر جائیں گے اور لوگ جلد امن دیکھیں گے۔‘