Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت لاہور کے تاریخی والٹن ایئرپورٹ کو کیوں ختم کرنا چاہتی ہے؟

آج کل پاکستان کے شہر لاہور میں برصغیر کے سب سے پرانے ہوائی اڈے والٹن ایئر پورٹ اور لاہور فلائنگ کلب کو ختم کرنے کے حوالے سے بحث گرم ہے۔ حکومت اس تاریخی ہوائی اڈے کو ختم کرنے کا اعلان کر چکی ہے جبکہ اس جگہ پر اب تجارتی مرکز بنے گا۔
اس ہوائی اڈے کو بچانے کے لیے کئی متعلقہ افراد نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور عدالت نے وقتی طور پر حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی سے روک دیا ہے۔  
والٹن ایئر پورٹ گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے درمیان اور لاہور کے مرکز، کلمہ چوک کے پہلو میں واقع ہے۔ والٹن ایئر پورٹ کے اندر داخل ہوتے ہی پہلا احساس یہ ہوتا ہے جیسے اس خطے کی ایک صدی پرانی ہوا بازی کی تاریخ سینہ پھیلائے آپ کا انتظار کر رہی ہو۔
جیسے ہی جہازوں کے ہینگرز کی جانب بڑھیں تو تاریخ کے نہ مٹنے والے نقوش نظر آتے ہیں، خاص طور پر 1930 کے تعمیر شدہ لاہور فلائنگ کلب کے ہینگر کی لوہے کی دیواروں میں تاریخ کنندہ نظر آتی ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے اس کے سحر میں ضرور گم ہو جاتے ہیں۔  
برصغیر میں ہوا بازی کی تاریخ دراصل نجی فلائنگ کلبوں سے شروع ہوئی۔ 
پاکستان ایئر فورس کے سابق ایئر وائس مارشل ساجد حبیب نے اس دلچسپ تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ سنہ 1920 میں کچھ ہوا بازی کے شوقین افراد نے پنجاب حکومت کو چٹھی لکھی اور فلائنگ کلب کے لیے جگہ مانگی تو حکومت نے اس وقت لاہور سے باہر کوٹ لکھپت اور بھابھڑا موضع جات میں کوئی پونے دو سو ایکٹر جگہ مختص کر دی۔
’پہلے اس کا نام پنجاب فلائنگ کلب تھا، بعد میں اس کا نام ناردرن انڈین فلائنگ کلب رکھ دیا دیا گیا۔ اور اس جگہ پر پہلا فرانسیسی طیارہ کورڈون جی تھری اڑایا گیا۔ اسی دور میں ہی اس طیارے کو عام لوگوں کی تربیت اور تفریحی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘ 
سنہ 1930 میں مزید طیاروں کی فراہمی اور ہوائی اڈے کی دیکھ بھال کے لیے تاج برطانیہ کو خط لکھے گئے لیکن تکنیکی بنیادوں پر امداد منظور نہ ہو سکی۔

برصغیر میں ہوا بازی کی تاریخ نجی فلائنگ کلبوں سے شروع ہوئی۔ فوٹو اردو نیوز

سابق ایئر وائس مارشل ساجد حبیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ سنہ 1932 میں ناردرن انڈین فلائنگ کلب کو باقاعدہ کمپنی کا درجہ دے دیا گیا اور یہیں سے اس خطے میں ہوابازی کی صنعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
’اس سے اگلے سال والٹن ریلوے ٹریننگ سکول کے سربراہ سر کیوسک والٹن کو اس کی سرپرستی کے لیے راضی کیا گیا اور یوں یہاں برطانوی امداد سے نئے ہینگر اور دیگر ترقیوں کا عمل شروع ہوا، انہیں کی وجہ سے بعد میں اس ہوائی کمپلیکس کو والٹن ایئر ڈروم کا نام دیا گیا۔‘
سنہ 1936 میں برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ سارلا ٹھکرال نے 21 سال کی عمر میں ناردرن انڈین فلائٹ کلب میں اپنی پروازوں کے ایک ہزار گھنٹے پورے کر کے لائسنس حاصل کیا۔  

والٹن ایئر پورٹ کا جنگوں میں کردار

ایئر وائس مارشل ریٹائڑڈ ساجد حبیب کے مطابق اس ہوائی اڈے کو جنگی مقاصد کے لیے پہلی مرتبہ دوسری جنگ عظیم میں استعمال کیا گیا۔ اس دوران ہوائی اڈے کو سول پروازوں کے لیے بند کر کے صرف جنگی طیاروں کے لیے کئی سال تک استعمال کیا جاتا رہا۔
’اس وقت تاج برطانیہ کو اس بات کا احساس ہوا کہ مغربی ہندوستان میں یہ ہوائی اڈا کتنا کارآمد تھا۔ اس وقت یہ ہوائی اڈا برطانوی شاہی فضائیہ کا ایک حساب سے مسکن تھا۔‘ 
صرف یہی نہیں سنہ 1965 اور 1971 کی دونوں بڑی جنگوں کے دوران بھی اس ہوائی اڈے نے بھرپور کردار ادا کیا۔
’1965 کی جنگ میں لاہور کی حفاظت کے لیے دونوں ایئر پورٹس کو استعمال کیا گیا۔ پی اے ایف کی سرگودھا ایئر بیس سے جہازوں کو آنے میں زیادہ وقت لگتا تھا اس لیے وہ بیک اپ کے لیے استعمال ہو رہی تھی، یہاں ملٹری کو بڑا ایئر کوور لاہور سے ہی مل رہا تھا۔‘ 

قائداعظم کا طیارہ بھی والٹن ایئر پورٹ پر ہی اترا تھا۔ فوٹو اردو نیوز

جبکہ قیام پاکستان کے وقت لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین نے بھی اسی ہوائی اڈے پر پناہ لی اور ایک بڑا عرصہ یہیں گزارا۔ اڈے پر خیمہ بستیاں اور ہسپتال قائم کیے گئے۔  

کمرشل ایئرپورٹ کے طور پر استعمال 

اس ایئر پورٹ کی تاریخی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ جب جواہر لال نہرو، کرم چند گاندھی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور آئے تو اسی ایئر پورٹ پر اترے۔
ساجد حبیب نے بتایا کہ تقسیم ہند کے بعد جب قائد اعظم پہلی مرتبہ لاہور آئے تو ان کا طیارہ بھی اسی ایئر پورٹ پر لینڈ کیا، جبکہ پاکستان کی پہلی کمرشل ایئر لائن ’اورینٹ ایئر ویز‘ نے بھی اپنی پروازوں کا آغاز یہیں سے کیا۔
’بعد ازاں پچاس کی دہائی میں جب اورینٹ کو ضم کر کے اس کا نام پاکستان ایئر لائنز رکھا گیا تو یہ ایئر پورٹ مکمل طور پر ایک کمرشل ہوائی اڈے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اسی لیے جب بڑے جہاز بننا شروع ہوئے تو حکومت کو لاہور میں نیا ایئر پورٹ بنانے کا خیال آیا۔‘ 
ساجد حبیب کے مطابق پی آئی اے کے پہلے عملے کی پاکستان ایئر فورس کے ساتھ تمام تر تربیت اسی ہوائی اڈے پر ہوئی۔
’1954 میں ناردرن انڈین فلائنگ کلب کا نام تبدیل کر کے اس کا نام لاہور فلائنگ کلب رکھ دیا گیا جو آج تک برقرار ہے۔ 1962 میں جب لاہور انٹرنیشل ایئر پورٹ تیار ہو گیا تو ہر قسم کی کمرشل پروازوں کو وہاں منتقل کر دیا گیا، تاہم لاہور فلائنگ کلب وہیں موجود رہا۔ پانچ کمرشل فلائنگ کلب یہاں ہزاروں پائلٹس کو تربیت دیتے ہیں جبکہ پانچ سو کے قریب اساتذہ اور سٹاف یہاں پر موجود ہیں۔‘ 

قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مہاجرین نے والٹن ہوائی اڈے پر پناہ لی۔ فوٹو اے ایف پی

حکومت کیوں والٹن ایئرپورٹ ختم کرنا چاہتی ہے؟ 

والٹن ایئر پورٹ کے ارد گرد ہاؤسنگ کالونیاں اور کمرشل عمارتیں بن چکی ہیں۔ سب سے پہلے 2015 میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں اس جگہ ایک وسیع و عریض کاروباری مرکز بنانے کی تجویز آئی جسے عدالت کی جانب سے روک دیا گیا اور حکومت نے منصوبہ واپس لے لیا۔ اب موجودہ دورحکومت میں وزیر اعظم عمران خان نے سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت یہاں کاروباری مرکز بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔
ساجد حبیب سمجھتے ہیں کہ یہ اتنے بڑے تاریخی ورثے کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔
’یہ لوگ کیسے ایسا کر سکتے ہیں، اگر ان کو لگتا ہے کہ یہاں کلب نہیں ہونا چاہیے تو اس جگہ کو میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے۔ اتنی بڑی تاریخ ساز جگہ پر اب دکانیں بنائیں گے یہ لوگ؟‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت فلائنگ کلبز کو متبادل جگہ دینے پر رضا مند ہے تو ان کا کہنا تھا کہ’کیسی بات کر رہے ہیں؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ لاہور شہر کو اٹھا کر چک جھمرہ منتقل کر دیا جائے؟ لاہور ایک تاریخی شہر ہے تو والٹن ائیرپورٹ ایک تاریخی ایئر پورٹ ہے۔ میرے خیال میں حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔‘  
دوسری جانب ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ سمجھتی ہیں کہ ملک کی معاشی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے مشکل معاشی فیصلے لینے کا وقت ہے۔
’ہمارے وزیراعظم کا وژن ہے کہ انویسٹمنٹ لائی جائے، نئے کاروباری مراکز بنیں گے تو انویسٹمنٹ آئے گی اور لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا ۔ ہم لاہور فلائیٹ کلب کو نئی جگہ منتقل کر رہے ہیں۔‘  

شیئر: